الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الفرائض
کتاب: وراثت کے احکام و مسائل
16. بَابُ : قِسْمَةِ الْمَوَارِيثِ
16. باب: میراث (ترکہ) کی تقسیم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2749
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ نَافِعًا يُخْبِرُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَا كَانَ مِنْ مِيرَاثٍ قُسِمَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَهُوَ عَلَى قِسْمَةِ الْجَاهِلِيَّةِ، وَمَا كَانَ مِنْ مِيرَاثٍ أَدْرَكَهُ الْإِسْلَامُ فَهُوَ عَلَى قِسْمَةِ الْإِسْلَامِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو میراث زمانہ جاہلیت میں تقسیم ہو چکی، وہ بدستور اس تقسیم پر رہے گی، اور جو میراث زمانہ اسلام آنے تک تقسیم نہیں ہوئی اسے اسلامی دستور کے مطابق تقسیم کیا جائے گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2749]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8232، ومصباح الزجاجة: 972) (صحیح) (سند میں ابن لہیعہ ضعیف الحفظ راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 1717، تراجع الألبانی: رقم: 486)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے کیسا عمدہ مسئلہ حل ہوا کہ ہر قانون کا عمل اس کے نفاذ کے بعد سے جو مقدمات پیدا ہوں ان پر ہوتا ہے اور جن مقدمات کے فیصلے قانون کے نفاذ سے پہلے ہو چکے ہوں ان میں اس قانون کے نفاذ سے کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   سنن ابن ماجهما كان من ميراث قسم في الجاهلية فهو على قسمة الجاهلية ما كان من ميراث أدركه الإسلام فهو على قسمة الإسلام

   سنن ابن ماجهما كان من ميراث قسم في الجاهلية فهو على قسمة الجاهلية ما كان من ميراث أدركه الإسلام فهو على قسمة الإسلام

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2749 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2749  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جو کام اسلام قبول کرنے سے پہلے خلاف اسلام کیے گئےہوں، اسلام لانے سے وہ معاف ہو جاتے ہیں، البتہ اگر ان کی اصلاح ممکن ہو تو اصلاح ضروری ہے، مثلاً:
اگر کسی کے نکاح میں دو عورتیں تھیں جو آپس میں بہنیں تھیں، اسلام قبول کرنے سے پہلے ان سے جو اولاد ہوئی:
وہ جائز اولاد شمار ہوگی لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد ان میں سے ایک کو طلاق دینا ضروری ہوگا۔

(2)
زنا جاہلیت میں بھی معیوب اور برا کا م سمجھا جاتا تھا اور جائز اور ناجائز اولاد میں فرق کیا جاتا تھا، اس لیےاسلام قبول کرنے سے پہلے ناجائز تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کو جائز اولاد کا مقام نہیں دیا جاسکتا جیسا کہ باب 14 میں تفصیل سے بیان ہوا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2749