عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق ولاء (میراث) کو بیچنے اور اس کو ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2748]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفة الأ شراف: 8222)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البیوع 20 (1236)، 54 (1287)، (صحیح)» (سند میں محمد بن عبدالملک صدوق ہیں، اس لئے یہ اسناد حسن ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2748
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) آزاد کرنے والے کا آزاد ہونے والے سے جو تعلق ہوتاہے۔ اسے ”ولاء“ کہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اسے بعض خاص حقوق حاصل ہوتے ہیں، مثلاً: آزاد ہونے والے کا کوئی وارث نہ ہو تو آزاد کرنے والا اس کا وراث ہوتا ہے۔ اور آزاد ہونے والا آزاد کرنے والے کے قبیلے کا فرد شمار ہوتا ہے۔
(2) ولاء کا تعلق ناقابل انتقال ہے۔ اسے نہ بیچا خریدا جا سکتا ہے، نہ بلامعاوضہ کسی کو دیا جا سکتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2748
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 521
´رشتہ ولاء بیچنا یا ہبہ کرنا جائز نہیں ہے` «. . . 289- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الولاء وعن هبته. . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتہ ولاء کے بیچنے اور ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 521]
تخریج الحدیث: [وأخرجه النسائي 306/7 ح 4662، من حديث مالك به ورواه البخاري 2535، ومسلم 1506، من حديث عبدالله بن دينار به] تفقه: ➊ جو شخص کسی غلام کو آزاد کرے تو وہ اس کا ولی (وارث) بن جاتا ہے اور اسی کی طرف غلام کو منسوب کیا جاتا ہے۔ اسے رشتۂ ولاء کہتے ہیں۔ ➋ رشتۂ ولاء بیچنا جائز نہیں ہے لہٰذا غلام اسی کا مولیٰ ہے جس نے اسے آزاد کیا ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 289
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 663
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام` سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ہی یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء کے فروخت کرنے اور اس کے ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 663»
تخریج: «أخرجه البخاري، الفرائض، باب إثم من تبرأ من مواليه، حديث:6756، ومسلم، العتق، باب النهي عن بيع الولاء وهبة، حديث:1506.»
تشریح: 1. اس حدیث میں ولا کے فروخت کرنے اور اسے ہبہ کرنے کی ممانعت ہے۔ 2. ولا‘ وراثت کے حق کو کہتے ہیں جو آزاد کرنے والے کو آزاد کردہ غلام کی طرف سے ملتا ہے۔ 3. اہل عرب آزاد کرنے والے کی وفات سے پہلے ہی غلام کی ولا کو فروخت یا ہبہ کر دیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ممنوع قرار دے دیا تاکہ ولا آزاد کرنے والے کے وارثوں کو ملے‘ یا اگر خود زندہ ہے تو وہ خود حاصل کر لے‘ لہٰذا ایسے غلام کی ولا فروخت کرنا یا اسے ہبہ کرنا جائز نہیں۔ جمہور علمائے سلف و خلف سب کا یہی موقف ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 663
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4661
´ولاء (حق وراثت) کے بیچنے کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء (وراثت) کو بیچنے اور اسے ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4661]
اردو حاشہ: ”ولا“ وہ تعلق اور رشتہ ہے جو آزاد کرنے والے اور آزاد شدہ غلام کے درمیان آزادی سے قائم ہوتا ہے۔ ظاہر ہے رشتے اور تعلقات نہ بیچے جا سکتے ہیں نہ کسی عطیتاً دیے جا سکتے ہیں۔ بسا اوقات اس تعلق کی وجہ سے آزاد کرنے والے کو آزاد شدہ غلام کی وراثت بھی حاصل ہو جاتی ہے، اس لیے جاہل لوگ یہ رشتہ بیچ دیا کرتے تھے کہ وارثت تو سنبھال لینا، مجھے اتنی رقم فوراً دے دے۔ شریعت نے اس زر پرستی سے منع فرمایا کہ رشتے بیچنے یا تحفتاً دینے کی چیز نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4661
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2919
´ولاء (میراث) بیچنے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء کو بیچنے اور اسے ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2919]
فوائد ومسائل: صحیح ابن حبان میں ہے کہ ولاء کی قرابت ایسے ہی ہے، جیسے کہ نسب کی قرابت اسے بیچا یا ہبہ نہیں کیا جاسکتا (صحیح ابن حبان، ابن بلبان البیع المنھي عنه، حدیث: 4950) نیز دیکھئے گزشتہ باب 12)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2919
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1236
´میراث ولاء کو بیچنے اور اس کو ہبہ کرنے کی کراہت کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء ۱؎ کو بیچنے اور ہبہ کرنے سے منع فرمایا ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1236]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: ولاء اس حق وراثت کوکہتے ہیں جوآزادکرنے والے کوآزاد کردہ غلام کی طرف سے ملتا ہے۔
2؎: عرب آزاد ہونے والے کی موت سے پہلے ہی ولاء کوفروخت کردیتے یا ہبہ کردیتے تھے، تورسول اللہ ﷺنے اسے ممنوع قراردیا تاکہ ولاء آزاد کرنے والے کے وارثوں کوملے یا اگرخود زندہ ہے تووہ خود حاصل کرے، لہٰذا ایسے غلام کا بیچنا یا اسے ہبہ کرنا جائزنہیں جمہور علماء سلف وخلف کا یہی مذہب ہے۔
2؎: عرب آزاد ہونے والے کی موت سے پہلے ہی ولاء کوفروخت کردیتے یا ہبہ کردیتے تھے، تورسول اللہ ﷺنے اسے ممنوع قراردیا تاکہ ولاء آزاد کرنے والے کے وارثوں کوملے یا اگرخود زندہ ہے تووہ خودحاصل کرے، لہٰذا ایسے غلام کا بیچنا یا اسے ہبہ کرنا جائزنہیں جمہور علماء سلف وخلف کا یہی مذہب ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1236
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2126
´ولاء کے بیچنے اور اسے ہبہ کرنے کی ممانعت کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء کے بیچنے اور اسے ہبہ کرنے سے منع فرمایا۔ [سنن ترمذي/كتاب الولاء والهبة/حدیث: 2126]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی نافع کی جگہ عبداللہ بن دینار کا واسطہ صحیح ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2126
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3788
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء کو بیچنے اور اس کے ہبہ کرنے سے منع فرمایا، امام مسلم فرماتے ہیں، اس حدیث کے سلسلہ میں تمام لوگ عبداللہ بن دینار کے محتاج ہیں، (ان کے سوا کسی سے یہ روایت مروی نہیں ہے)۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3788]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: ولاء: واؤ پر زبر ہے، نسبت آزادی، جس کی بناء پر آزاد کرنے والا جس کو آزاد کرتا ہے اس کا وارث بنتا ہے، تو جس طرح نسب (خاندان) کی تبدیلی کسی صورت میں ممکن نہیں ہے، یہی حکم ولاء کا ہے۔ فوائد ومسائل: اس مسئلہ پر اب علماء کا اتفاق ہے کہ جاہلیت کے رواج کے مطابق یا اس پر عمل کرتے ہوئے ولاء کی خریدو فروخت یا ہبہ کرنا جائز نہیں ہے اور بعض صحابہ سے جو اس کے خلاف منقول ہے تو اس کی وجہ یہ ہے ان تک یہ روایت نہیں پہنچتی تھی اور یہ روایت عام طور پر حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے صرف عبد اللہ بن دینار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واسطہ سے ہی مروی ہے اگرچہ صحیح ابن عوانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ثقات ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ میں عبداللہ بن دینار رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ نافع کو بھی شریک کیا گیا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3788
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2535
2535. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے ولا کے بیچنے اور اس کے ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2535]
حدیث حاشیہ: کیوں کہ ولاءایک حق ہے جو آزاد کرنے والے کو اس غلام پر حاصل ہوتا ہے جس کو وہ آماد کرے۔ ایسے حقوق کی بیع نہیں ہوسکتی۔ معلوم نہیں مرتے وقت اس غلام کے پاس کچھ مال وغیرہ رہتا ہے یا نہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2535
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2535
2535. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے ولا کے بیچنے اور اس کے ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2535]
حدیث حاشیہ: ولاء اس تعلق کو کہتے ہیں جو آزاد کردہ غلام اور اسے آزاد کرنے والے کے درمیان قائم ہو۔ جب آزاد کردہ غلام فوت ہو جائے تو اس کا وارث اس کا آزاد کرنے والا ہو گا یا اس کے دیگر ورثاء؟ دور جاہلیت میں لوگ اس تعلق کو بیچنا اور کسی کو ہبہ کرنا جائز خیال کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا کیونکہ ولاء نسب کی طرح ہے جو کسی طور پر بھی زائل نہیں ہو سکتا، اس کے متعلق کسی کو اختلاف نہیں ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2535
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6756
6756. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ولا کی خرید و فروخت اور اس کے ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6756]
حدیث حاشیہ: (1) چونکہ خرید و فروخت اور ہبہ کرنے میں قبضہ اور تسلیم بنیادی شرط ہے جو ولا میں نہیں ہوسکتا، اس لیے شریعت نے اسے ناجائز ٹھہرایا ہے۔ ولا، نسب کی طرح ہے۔ جس طرح نسب کی خرید و فروخت حرام ہے اسی طرح ولا کی خرید و فروخت بھی ناجائز ہے۔ (2) بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے ولا کے ہبے کا جو جواز مذکور ہے تو اس میں اور مذکورہ حدیث میں تطبیق یہ ہے کہ انھیں منع والی روایت کا علم نہیں ہوگا۔ (فتح الباري: 54/12) بہر حال یہ تعلق ناقابلِ انتقال اور ناقابلِ خرید و فروخت ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6756