اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں قبیلہ کندہ کے وفد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، وہ لوگ مجھے سب سے بہتر سمجھتے تھے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ لوگ ہم میں سے نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم نضر بن کنانہ کی اولاد ہیں، نہ ہم اپنی ماں پر تہمت لگاتے ہیں، اور نہ اپنے والد سے علیحدہ ہوتے ہیں“۔ راوی کہتے ہیں: اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ میرے پاس اگر کوئی ایسا شخص آئے جو کسی قریشی کے نضر بن کنانہ کی اولاد میں سے ہونے کا انکار کرے، تو میں اسے حد قذف لگاؤں گا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2612]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفربہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 161، ومصباح الزجاجة: 925)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/274، 5/211، 212) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قریش نضر بن کنانہ کی اولاد ہیں۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2612
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) نبی اکرمﷺ قبیلہ قریش سے ہیں۔ قریش فہر بن مالک کا لقب ہے۔ فہر کی اولاد ہی قریش کہلاتی ہے۔ مالک کےوالد (فہرکے داد) کا نام نضربن کنانہ ہے۔ (دیکھیے: الرحیق المختوم ص: 75)
(2) جب کسی کویہ کہا جائے یہ اس شخص سےنہیں جس کا یہ بیٹا سمجھا جاتا ہےتو اس کا مطلب اس کی ماں پر زنا کی تہمت ہے لہٰذا یا تو وہ شخص اپنا الزام ثابت کرے ورنہ اسی (80) کوڑے سزا ملے گی۔
(3) زنا کا الزام صریح الفاظ میں لگایا جائے یا اشارتاً دونوں صورتوں میں ایک ہی حکم ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2612