سلمہ بن محبق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب حدود کی آیت نازل ہوئی تو سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے جو ایک غیرت مند شخص تھے، پوچھا گیا: اگر آپ اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائیں تو اس وقت آپ کیا کریں گے؟ جواب دیا: میں تلوار سے ان دونوں کی گردن اڑا دوں گا، کیا میں چار گواہ ملنے کا انتظار کروں گا؟ اس وقت تک تو وہ اپنی ضرورت پوری کر کے چلا جائے گا، اور پھر میں لوگوں سے کہتا پھروں کہ فلاں شخص کو میں نے ایسا اور ایسا کرتے دیکھا ہے، اور وہ مجھے حد قذف لگا دیں، اور میری گواہی قبول نہ کریں، پھر سعد رضی اللہ عنہ کی اس بات کا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا، تو آپ نے فرمایا: ”(غلط حالت میں) تلوار سے دونوں کو قتل کر دینا ہی سب سے بڑی گواہی ہے“، پھر فرمایا: ”نہیں“ میں اس کی اجازت نہیں دیتا، مجھے اندیشہ ہے کہ اس طرح غیرت مندوں کے ساتھ متوالے بھی ایسا کرنے لگیں گے۔ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوزرعہ کو کہتے سنا ہے کہ یہ علی بن محمد طنافسی کی حدیث ہے، اور مجھے اس میں کا کچھ حصہ یاد نہیں رہا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2606]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4562، ومصباح الزجاجة: 921) (ضعیف)» (قبیصہ بن حریث ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 91 40)
وضاحت: ۱؎: عورت کے ساتھ غیر مرد کو برے کام میں دیکھنے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کی اجازت نہ دی، پس اگر کوئی قتل کرے تو وہ قصاص میں قتل کیا جائے گا، لیکن اگر اپنے بیان میں سچا ہو گا تو آخرت میں اس سے مواخذہ نہ ہو گا۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (4417) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 472