ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس سے اس کا مال ناجائز طریقے سے لینے کا ارادہ کیا جائے، اور وہ اس کے بچانے میں قتل کر دیا جائے، تو وہ شہید ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2582]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13657، ومصباح الزجاجة: 912)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/194، 324) (حسن صحیح)» (عبدالعزیز بن المطلب صدوق ہیں، اس لئے یہ سند حسن ہے، لیکن شواہد کی بناء پر صحیح ہے)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2582
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ہرشخص کو حق حاصل ہےکہ اس کی جان اس کامال اس کی عزت محفوظ رہے لہٰذا حملہ آور کےخلاف دفاع کرنا اس کا حق ہے۔
(2) مال کی حفاظت کے لیے حملہ آور کےخلاف لڑنا جائز ہے توعزت اورجان کی حفاظت کےلڑنا بالاولیٰ جائزہوگا۔
(3) دفاع کرنےوالا شہید ہوجائے تو وہ شہید ہے تاہم اس کا درجہ ایمان کی حفاظت یا اسلامی سلطنت کی حفاظت کے لیے جہاد کرتے ہوئے شہید سے کم ہے۔ ایسے شخص کو باقاعدہ غسل اور کفن دے کردفن کیا جائے جب کہ معرکہ جہاد کےشہید کےلیےغسل اور کفن ضرورت نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2582
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 360
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ بتائیے! اگر کوئی آدمی آکر میرا مال چھیننا چاہے (تو میں کیا کروں)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے اپنا مال نہ دے۔“ اس نے پوچھا: بتائیے! اگر وہ میرے ساتھ لڑائی کرے؟ فرمایا: ”تو اس سے لڑائی کر!“ اس نے پوچھا: فرمائیے! اگر وہ مجھے قتل کر دے؟ تو آپؐ نے فرمایا: ”تو شہید ہے۔“ اس نے پوچھا: اگر میں اسے قتل کر دوں؟ فرمایا: ”وہ دوزخی ہو گا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:360]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) اپنے مال ودولت کا تحفظ اور بچاؤ ایک اجر وثواب اور فضیلت کا کام ہے، کیونکہ اگر ہر انسان ظلم کو گوارا کرنا شروع کر دے، ظالم کا مقابلہ نہ کرے تو ظالم دلیر ہوں گے، اور ان کی مال ودولت کی ہوس، ان کو مزید ظلم وستم پر آمادہ کرے گی۔ لیکن اگر ظالموں کا مقابلہ ہوگا، ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، تو ظلم وستم کا راستہ بند ہوگا۔ اس لیے شریعت اس کام کو اجر وثواب کا باعث قرار دیتی ہے، تاکہ لوگوں کے اندر ظالموں کی راہ روکنے کی ہمت وجرأت پیدا ہو۔ بد قسمتی سے آج ہم نے اس حدیث پر عمل کرنا چھوڑ دیا؟ اس لیے دن بدن قتل وغارت اور دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ (2) دوسروں پر ظلم وستم ڈھانا، کسی کا مال چھیننا، اس قدر گھناؤنا فعل ہے کہ ایسے شخص کا خون محترم نہیں رہتا، اس کا ضرورت کی صورت میں خون بہانا جائز ہوگا، اور اس فعل کا خاصہ جہنم کی سزا ہے، اگر توبہ نہ کی یا معافی نہ ملی۔ اور اس کے ہاتھوں مظلوم مرنے والا آخرت کے اجر وثواب کی رو سے شہید ہوگا۔