ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ہم پر ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2577]
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7071
´مسلمانوں کے خلاف اسلحہ اٹھانا حرام ہے` «. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ فَلَيْسَ مِنَّا . . .» ”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہم مسلمانوں پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم سے نہیں ہے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْفِتَنِ: 7071]
� فہم الحدیث: ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے خلاف اسلحہ اٹھانا حرام ہے اور جو ایسا کرے گا وہ بغاوت و سرکشی کا مرتکب ہو کر مسلمانوں کی جماعت سے نکل جائے گا، حاکم وقت ایسے لوگوں کو بلا کر ان کے شبہات دور کرنے کی کوشش کرے گا اور انہیں جماعت میں شرکت کی دعوت دے گا۔ اگر وہ تسلیم کر لیں تو درست ورنہ ان کے راہ راست پر آنے تک ان سے قتال کیا جائے گا۔ جیسا کہ قرآن میں ہے کہ «فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّـهِ»[الحجرات: 9]”باغی گروہ سے لڑائی کرو حتیٰ کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئیں۔“
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 64
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1459
´مسلمان کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے کا بیان۔` ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ہمارے خلاف ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں ہے“۱؎۔ اس باب میں ابن عمر، ابن زبیر، ابوہریرہ اور سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود/حدیث: 1459]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: مسلمانوں کے خلاف ناحق ہتھیار اٹھانے والا اگر اسے حلال سمجھ کر ان سے صف آرا ہے تو اس کے کافر ہونے میں کسی کو شبہ نہیں اور اگر اس کا یہ عمل کسی دنیاوی طمع و حرص کی بناء پر ہے تو اس کا شمار باغیوں میں سے ہوگا اور اس سے قتال جائز ہوگا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1459
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 282
ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جس نے ہمارے خلاف ہتھیار اٹھائے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:282]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: لَيْسَ مِنَّا: سے مقصود اس کو کافر قرار دینا نہیں ہے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ اس کے اخلاق واعمال ہم جیسے نہیں ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو فرمایا تھا: ﴿إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ﴾”وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے۔ “ حالانکہ وہ نسبی طور پر انھی کا بیٹا تھا، مقصود تھا: اس نے تیرے اہل والا طریقہ اور رویہ اختیار نہیں کیا یا اس نے تیری اطاعت وپیروی نہیں کی اور تیرے راستہ پر نہیں چلا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 282
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7071
7071. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے،وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جس نے ہم مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7071]
حدیث حاشیہ: بلکہ کافر ہے اگر مسلمان پر ہتھیار اٹھا نا حلال جانتا ہے اگر درست نہیں جانتا تو ہمارے طریق سنت پر نہیں ہے اس لیے کیونکہ ایک امر حرام کا ارتکاب کرنا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7071
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7071
7071. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے،وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جس نے ہم مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7071]
حدیث حاشیہ: 1۔ اگر ہتھیاراٹھانے والا مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کو حلال سمجھتا ہے تو ایسی حالت میں وہ مسلمان نہیں بلکہ دین اسلام سے خارج ہے لیکن جو اسے حلال خیال نہیں کرتا تو ایسا انسان ہمارے طریقے پر نہیں اور نہ وہ ہمارا پیروکار ہی ہے کیونکہ مسلمان کا مسلمان پر حق یہ ہے کہ وہ اس کی مدد کرے اور اس کی جان بچانے کے لیے ہتھیار اٹھائے۔ لیکن جو اہل اسلام کو ڈرانے کے لیے ہتھیاراٹھاتا ہے وہ ہمارے راستے پر چلنے والا نہیں ہے کیونکہ اس نے ایک حرام کام کا ارتکاب کیا ہے۔ 2۔ اکثر اسلاف اسے ظاہری معنی پر محمول کرتے ہیں اور اس کی کوئی تاویل نہیں کرتے تاکہ وعید اور زجر کے متعلق زیادہ مؤثر ہو۔ (فتح الباري: 31/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7071