حضین بن منذر رقاشی کہتے ہیں کہ جب ولید بن عقبہ کو عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا اور لوگوں نے ان کے خلاف گواہی دی، تو عثمان رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا: اٹھئیے اور اپنے چچا زاد بھائی پر حد جاری کیجئے، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے ان کو کوڑے مارے اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس کوڑے لگائے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چالیس کوڑے لگائے، اور عمر رضی اللہ عنہ نے اسی کوڑے لگائے، اور ان میں سے ہر ایک سنت ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2571]
وضاحت: ۱؎: ولید بن عقبہ عثمان رضی اللہ عنہ کے اخیافی بھائی تھے، اور ان کے دور خلافت میں کوفہ کے عامل تھے، انہوں نے لوگوں کو صبح نماز فجر چار رکعتیں پڑھائیں، اور بولے: اور زیادہ کروں؟ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم ہمیشہ زیادتی ہی میں رہے جب سے تم حاکم ہوئے، یہ عقبہ بن ابی معیط کا بیٹا تھا جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اونٹنی کی بچہ دانی لا کر ڈال دی تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں تھے، ولید بن عقبہ نے شراب پی کر نشہ کی حالت میں نماز پڑھائی، آخر لوگوں کی شکایت پر معزول ہو کر مدینہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر کیا گیا، شرابی کی حد کوئی معین نہیں، امام کو اختیار ہے خواہ چالیس کوڑے مارے یا کم یا زیادہ، خواہ جوتوں سے مارے، صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص لایا گیا جس نے شراب پی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو چالیس کے قریب چھڑی سے مارا، راوی نے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی کیا، جب عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو انہوں نے لوگوں سے رائے لی، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: سب حدوں میں جو ہلکی حد قذف ہے، اس میں اسی (۸۰) کوڑے ہیں، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے بھی شراب میں اسی کوڑے مارنے کا حکم دیا، اور بخاری میں عقبہ بن حارث سے روایت ہے کہ نعمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے جو گھر میں تھے فرمایا: ”اس کو مارو“ تو میں نے بھی اس کو جوتوں اور چھڑیوں سے مارا، اور اس باب میں کئی حدیثیں ہیں ان سب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب پینے کی حد مقرر نہیں کی، جیسا مناسب ہوتا ویسا آپ عمل کرتے، اور ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی مٹی لی اور شرابی کے منہ پر ڈال دی۔
أزيدكم فشهد عليه رجلان أحدهما حمران أنه شرب الخمر وشهد آخر أنه رآه يتقيأ فقال عثمان إنه لم يتقيأ حتى شربها فقال يا علي قم فاجلده فقال علي قم يا حسن فاجلده فقال الحسن ول حارها من تولى قارها فكأنه وجد عليه فقال يا عبد الله بن جعفر قم فاجلده فجلده
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2571
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: خلفائے راشدین کا عمل سنت ہےاور اسے دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ نبی اکرمﷺ نےفرمایا: ”میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت اختیار کرو۔“(جامع الترمذی، العلم، باب ماجاء فی أخذ بالسنة واجتناب البدعة‘ حدیث: 2672)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2571
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4457
امام صاحب چار اساتذہ کی دو سندوں سے ابو ساسان حضین بن منذر سے بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عثمان بن عفان ؓ کے پاس حاضر تھا کہ ان کے سامنے ولید ؓ کو لایا گیا، اس نے صبح کی دو رکعتیں پڑھانے کے بعد پوچھا، کیا تمہیں اور نماز پڑھا دوں؟ تو اس کے بارے میں دو آدمیوں نے گواہی دی، ان میں ایک حمران ؓ تھے، اس نے کہا، اس نے شراب پی ہے۔ اور دوسرے نے گواہی دی، میں نے اسے قے کرتے دیکھا ہے تو حضرت عثمان ؓ نے کہا، شراب پی ہے تو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4457]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: لم يتقيا حتي شربها: شراب نوشی کے بغیر اس کو قے نہیں ہو سکتی، امام مالک اور امام احمد کے راجح قول کے مطابق، شراب کی قے کی شہادت سے شراب نوشی ثابت ہو جاتی ہے، اس لیے اس پر حد لازم ہو جاتی ہے، لیکن امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے نزدیک، شراب کی قے سے حد لازم نہیں ٹھہرتی، کیونکہ ممکن ہے مجبور اور اضطراری حالت میں یا غلط فہمی سے پی ہو، لیکن بقول علامہ تقی مالکیہ اور حنابلہ کا موقف مضبوط ہے، کیونکہ اس کو خلفائے راشدین کے فیصلہ جات کی تائید حاصل ہے، عقلا بھی اس کی تائید ہوتی ہے اور آج کل کے بگڑے ہوئے حالات کا تقاضا بھی یہی ہے اس لیے امام نووی سے اس کو ترجیح دی ہے، (تکملہ ج 2 ص 505) ولي حارها من تولي قارها: ایک ضرب المثل ہے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو کسی چیز کے فائدہ اور منافع سے متمتع ہوتا ہے، اس کا اگر کوئی نقصان ہو تو وہ بھی اسے ہی برداشت کرنا چاہیے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب خلافت کی سہولتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں تو یہ سختی اور شدت کا کام جس سے محدود اور اس کے اقارب کے دل میں نفرت پیدا ہو گی، بھی خود ہی سرانجام دیں، حالانکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تکریم و توقیر کرتے ہوئے، انہیں یہ ذمہ داری سونپی تھی، صحیح بخاری میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مناقب میں آیا ہے کہ حضرت علی نے اَسی کوڑے لگوائے تھے اور تطبیق کی صورت یہ ہے، جیسا کہ بعض روایات میں موجود ہے کہ چالیس کوڑے لگوائے تھے، لیکن اس کے سرے دو تھے، اس لیے جس نے کوڑے کا لحاظ رکھا چالیس کہا اور جس نے کوڑے کے دو سرے سامنے رکھے، اس نے (80) کہا، اس طرح گویا، چالیس کوڑے دہرے مارنا پسندیدہ عمل قرار دیا، اس لیے كل سنة کا معنی یہ ہو سکتا ہے، اَسی (80) کوڑے اور چالیس دہرے کوڑے، دونوں سنت ہیں اور اَسی (80) کوڑے لگانے کا مشورہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہی دیا تھا۔ (فتح الباری، ج 12، ص 85) جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔