عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر زنا کا اعتراف کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اس کے کپڑے باندھ دئیے گئے، پھر اس کو رجم کیا، اس کے بعد اس کی نماز جنازہ پڑھی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2555]
وضاحت: ۱؎: یعنی آپ نے اس کو رجم کرنے کا حکم دیا تو اس کے کپڑے باندھ دیئے گئے تاکہ بے پردگی نہ ہو، بعضوں نے اس کے حق میں کچھ برے الفاظ نکالے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ سارے مدینہ والوں میں بانٹ دی جائے تو ان کو کافی ہو جائے گی، بے شک یہ عورت اس زمانہ کے تمام عابدوں اور زاہدوں سے درجہ میں زیادہ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گناہ کا اقرار کیا، سزا پائی، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ سے مشرف ہوئی، اللہ ان کے درجہ کو بلند کرے، آمین۔
امرأة من جهينة أتت نبي الله وهي حبلى من الزنى فقالت يا نبي الله أصبت حدا فأقمه علي فدعا نبي الله وليها فقال أحسن إليها فإذا وضعت فأتني بها ففعل فأمر بها نبي الله فشكت عليها ثيابها ثم أمر بها فرجمت
أتصلي عليها وقد زنت ورجمتها ؟ ! فقال النبى صلى الله عليه وآله وسلم : لقد تابت توبة لو تاب بها سبعون من أهل المدينة لقبل منهم ، هل وجدت أفضل أن جادت بنفسها ؟
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1959
´رجم کئے ہوئے شخص کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔` عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور کہنے لگی: میں نے زنا کیا ہے، وہ حاملہ تھی، تو آپ نے اسے اس کے ولی کے سپرد کر دیا اور کہا: ”اسے اچھی طرح رکھو، اور جب بچہ جن دے تو میرے پاس لے کر آنا“، چنانچہ جب اس نے بچہ جن دیا تو ولی اسے لے کر آیا، تو آپ نے اسے حکم دیا، اس کے کپڑے باندھ دیئے گئے، پھر آپ نے اسے رجم کیا، پھر اس کی نماز جنازہ پڑھی، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا: آپ اس کی نماز جنازہ پڑھ رہے ہیں؟ حالانکہ وہ زنا کر چکی ہے، تو آپ نے فرمایا: ”اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ اہل مدینہ کے ستر لوگوں کے درمیان تقسیم کر دی جائے تو ان سب کو کافی ہو جائے، اور اس سے بہتر توبہ اور کیا ہو گی کہ اس نے اللہ تعالیٰ (کی شریعت کے پاس و لحاظ میں) اپنی جان (تک) قربان کر دی۔“[سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1959]
1959۔ اردو حاشیہ: ➊ ”ولی کے سپرد کر دیا“ کیونکہ حرام کاری سے پیدا ہونے والا بچہ تو بے قصور ہے، لہٰذا اسے ہلاک نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کی حفاظت کی جائے گی، نیز یہ طریقہ زنا روکنے میں ممد ہو گا کیونکہ بچے کی صورت میں زانیوں کے لیے ابدی عار موجود رہے گی۔ ➋ ”بچہ جن لیا“ جننے کے فوراًً بعد رجم نہیں کیا گیا بلکہ دیگر روایات میں ہے جب بچہ اس کے دودھ سے بے نیاز ہو گیا اور روٹی کھانے لگا۔ قربان جائیں ایسے شفیق و کریم نبی پر۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ ➌ شادی شدہ عورت اگر زنا کا ارتکاب کرے تو اس کو بھی رجم کیا جائے گا جس طرح مرد کو رجم کیا جاتا ہے۔ ➍ حاملہ عورت کو رجم نہیں کیا جائے گا جب تک وضع حمل نہ ہو جائے اور بچہ دودھ کے علاوہ کچھ کھانے پینے لگ جائے۔ ➎ کپڑے باندھ لینا مستحب ہے تاکہ بے پردگی نہ ہو۔ ➏ قاضی یا حاکم کا رجم میں شرکت کرنا ضروری نہیں۔ ➐ گناہ کیے ہوئے زیادہ عرصہ گزر جائے تو اس سے حد ساقط نہیں ہو جاتی بلکہ جب بھی عدالت میں کیس ثابت ہو گیا تو حد قائم کی جائے گی۔ ➑ حد لگنے کے بعد آدمی کو اس گناہ کا طعنہ نہیں دیا جا سکتا کیونکہ حد گناہ کو ختم کر دیتی ہے، اب وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے وہ گناہ کیا ہی نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1959
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1435
´بچہ جننے کے بعد حاملہ کو رجم کرنے کا بیان۔` عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زنا کا اقرار کیا، اور عرض کیا: میں حاملہ ہوں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ولی کو طلب کیا اور فرمایا: اس کے ساتھ حسن سلوک کرو اور جب بچہ جنے تو مجھے خبر کرو، چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا، اور پھر آپ نے حکم دیا، چنانچہ اس کے کپڑے باندھ دیئے گئے ۱؎ پھر آپ نے اس کو رجم کرنے کا حکم دیا، چنانچہ اسے رجم کر دیا گیا، پھر آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی تو عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے اسے رجم کیا ہے، پھر اس کی نماز۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الحدود/حدیث: 1435]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: معلوم ہوا کہ عورتوں پر حد جاری کرتے وقت ان کے جسم کی سترپوشی کا خیال رکھنا چاہئے۔
2؎: مسلمانوں کے دیگر اموات کی طرح جس پر حد جاری ہو اس پربھی صلاۃِ جنازہ پڑھی جائے گی، کیونکہ حد کا نفاذ صاحب حد کے لیے باعث کفارہ ہے، اس پر جملہ مسلمانوں کا اتفاق ہے، یہی وجہ ہے کہ مذکورہ حدیث میں نبی اکرمﷺ نے عمر رضی اللہ عنہ سے اس تائبہ کے توبہ کی کیا اہمیت ہے اسے واضح کیا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1435