ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور کہا: میں نے زنا کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا، انہوں نے پھر کہا: میں نے زنا کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منہ پھیر لیا، انہوں نے پھر کہا: میں نے زنا کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منہ پھیر لیا، انہوں نے پھر کہا: میں نے زنا کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منہ پھیر لیا یہاں تک کہ چار بار زنا کا اقرار کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ انہیں رجم کر دیا جائے، چنانچہ جب ان پر پتھر پڑے تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے، ایک شخص نے انہیں پا لیا، اس کے ہاتھ میں اونٹ کے جبڑے کی ہڈی تھی، اس نے ماعز کو مار کر گرا دیا، پتھر پڑتے وقت ان کے بھاگنے کا تذکرہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آخر تم نے انہیں چھوڑ کیوں نہ دیا“؟۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2554]
وضاحت: ۱؎: تاکہ ان سے پھر پوچھے شاید وہ اپنے اقرار سے پھر جاتے اور حد ساقط ہو جاتی، زنا کا اقرار ایک بار کرنا حد کے لئے کافی ہے، اور صحیح مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غامدیہ کو رجم کیا، اس نے ایک ہی بار اقرار کیا تھا، ایک یہودی اور یہودیہ کا رجم آگے مذکور ہو گا، اس میں بھی چار بار اقرار کا ذکر نہیں ہے۔
أنكتها قال نعم قال حتى غاب ذلك منك في ذلك منها قال نعم قال كما يغيب المرود في المكحلة والرشاء في البئر قال نعم قال فهل تدري ما الزنا قال نعم أتيت منها حراما ما يأتي الرجل من امرأته حلالا قال فما تريد بهذا القول قال أريد أن تطهرني
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2554
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اقرارسے زنا کا جرم ثابت ہوجاتا ہے۔
(2) جرم کی سزا دینے کے لیے ضروری ہے کہ جرم کے ارتکاب کا علم ہو جائے اور کسی قسم کا شبہ نہ رہے۔ نبی اکرمﷺ نے اس شخص سے پوچھا تھا: کیا تجھے جنون کی شکایت تو نہیں۔ (صیحح البخاري، الحدود، باب لایرجم المجنون والمجنونة حدیث: 6815) اس کے علاوہ اس سے پوچھا تھا: شاید تونے بوسہ لیا ہو یا ہاتھ لگایا ہو یا (بری نیت سے) دیکھا ہو (اورتو اسے زنا کہہ کر زنا کی سزا کا مطالبہ کررہا ہو) ۔ اس نے کہا نہیں اے اللہ کے رسول: (صیحح البخاري، الحدود، باب ھل یقول الأمام للمقر: لعلک لمست أوغمزت، حدیث: 6824)
(3) اس واقعہ سے حضرت ماعزبن مالک کی عظمت ظاہر ہوتی ہے کہ انھوں نے محض اللہ کے ڈرسے حد کے ذریعے جان دینا قبول کی۔
(4) ضرورت کے موقع پر ایسے الفاظ کہنا جائز ہے جنھیں عام حالات میں حیا کے منافی سمجھا جاتا ہے۔
(5) حدود کانفاذ مسجد سےباہر کرنا چاہیے۔
(6) جوشخص خود اپنے جرم کا اقرتر کرے اگر وہ اس کے بعد اقرارسے منحرف ہو جائے تو اسے سزا نہیں دی جائے گی۔ اس واقعہ سے امام ترمذی نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے۔ (جامع ترمذي، الحدود، باب ما جاء فی درءالحد عن المعترف إذا رجع، حدیث: 1428)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2554
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4428
´ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے رجم کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ اسلم کا ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے اپنے خلاف چار بار گواہی دی کہ اس نے ایک عورت سے جو اس کے لیے حرام تھی زنا کر لیا ہے، ہر بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا منہ اس کی طرف سے پھیر لیتے تھے، پانچویں بار آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”کیا تم نے اس سے جماع کیا ہے؟“ اس نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا عضو اس کے عضو میں غائب ہو گیا“ بولا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسے ہی جیسے سلائی سرمہ دانی میں، اور رسی کنویں میں داخل ہو جاتی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4428]
فوائد ومسائل: قرآن مجید میں اللہ تعالی نے بھی غیبت کرنے کو مسلمان مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیاہے۔ (سورة حجرات: 12) اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ غیبت کرنا کتنا قبیح فعل ہے۔ اور اگلی احادیث میں آرہا ہے کہ نبی ﷺ نے سزا یافتہ کو خیر اور اچھے الفاظ کے ساتھ یاد فرمایا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4428