عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے اندیشہ ہے کہ جب زمانہ زیادہ گزر جائے گا تو کہنے والا یہ کہے گا کہ میں کتاب اللہ میں رجم (کا حکم) نہیں پاتا، اور اس طرح لوگ اللہ تعالیٰ کے ایک فریضے کو ترک کر کے گمراہ ہو جائیں، واضح رہے کہ رجم حق ہے، جب کہ آدمی شادی شدہ ہو گواہی قائم ہو، یا حمل ٹھہر جائے، یا زنا کا اعتراف کر لے، اور میں نے رجم کی یہ آیت پڑھی ہے: «الشيخ والشيخة إذا زنيا فارجموهما البتة»”جب بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت زنا کریں تو ان دونوں کو ضرور رجم کرو ...“۱؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا، اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2553]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2553
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) رجم کا مطلب یہ ہے کہ اگر زنا کا مجرم مرد ہو یا عورت شادی شدہ ہو تواسے پتھر مار مار کر ہلا ک کردیا جائے۔
(2) زنا کے مجرم کےلیے رجم کا حکم سابقہ شریعتوں میں بھی موجود تھا۔ بائبل کے موجودہ نسخوں میں بھی زانی کے لیے سزائے موت کا حکم موجود ہے۔ (دیکھیے: کتاب احبار، باب: 20 فقرہ: 10)
(3) قرآن مجید میں بعض آیات یا ان کے احکام منسوخ ہوئےہیں۔ زیر مطالعہ حدیث میں مذکور آیت کی تلاوت منسوخ ہے اور حکم باقی ہے۔
(4) زنا كا جرم تین طرح ثابت ہوتا ہے:
(1) چار چشم دید گواہوں کی گواہی۔
(2) مجرم کے اقرار جرم سے۔
(3) غیر شادی شدہ عورت کو حمل ہوجانے سے، البتہ غیرشادی شدہ مجرم کو سنگسار نہیں کیا جائے گا بلکہ سوکوڑے کی سزا دی جائے گی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2553