الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الأحكام
کتاب: قضا کے احکام و مسائل
20. بَابُ : الْقَضَاءِ بِالْقُرْعَةِ
20. باب: قرعہ اندازی کے ذریعہ فیصلہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2346
حَدَّثَنَا جَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ الْعَتَكِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ خِلَاسٍ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ،" أَنَّ رَجُلَيْنِ تَدَارَءَا فِي بَيْعٍ لَيْسَ لِوَاحِدٍ مِنْهُمَا بَيِّنَةٌ فَأَمَرَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَسْتَهِمَا عَلَى الْيَمِينِ أَحَبَّا ذَلِكَ أَمْ كَرِهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بیع کے متعلق دو آدمیوں نے جھگڑا کیا، اور ان میں کسی کے پاس گواہ نہیں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو قسم کھانے کے لیے قرعہ ڈالنے کا حکم دیا خواہ انہیں یہ فیصلہ پسند ہو یا ناپسند۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2346]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الأقضیة 22 (3616) وأنظر حدیث رقم: (2329)، (تحفة الأشراف: 14662)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/489، 524) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
ضعيف
انظر الحديث السابق (2329)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 463

   سنن أبي داودرجلين اختصما في متاع إلى النبي ليس لواحد منهما بينة فقال النبي استهما على اليمين ما كان أحبا ذلك أو كرها
   سنن ابن ماجهرجلين تدارءا في بيع ليس لواحد منهما بينة فأمرهما رسول الله أن يستهما على اليمين أحبا ذلك أم كرها
   سنن ابن ماجهرجلين ادعيا دابة ولم يكن بينهما بينة فأمرهما النبي أن يستهما على اليمين

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2346 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2346  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے صحیح قرار دیا ہے جیسا کہ تفصیل گزر چکی ہے۔ (دیکھیے حدیث: 21329)
چونکہ معاملات میں اختلاف کا فیصلہ گواہی کی بنیاد پر ہوتا ہے اس لیے جس شخص کو حقیقت کا علم ہو اسے چاہیے کہ گواہی دینے میں پس و پیش نہ کرے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلا تَكتُمُوا الشَّهادَةَ﴾ (البقرہ 2: 283)
 گواہی مت چھپاؤ۔

(2)
  جب مدعی گواہ پیش نہ کرسکے یا اس کے گواہ قابل قبول نہ ہوں تو مدعا علیہ سے قسم لی جاتی ہے۔

(3)
  حدیث میں مذکورہ صورت میں دونوں افراد کو مدعی بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور دونوں مدعاعلیہ بھی سمجھے جا سکتے ہیں۔
اب کون مدعا علیہ بن کر قسم کھائے اس کا فیصلہ قرعہ اندازی سے ہوگا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2346   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2329  
´ایک چیز کے دو دعوے دار ہوں اور کسی کے پاس گواہ نہ ہوں تو اس کی حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ذکر کیا کہ ایک جانور پر دو آدمیوں نے دعویٰ کیا، اور ان دونوں میں سے کسی کے پاس گواہ نہیں تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو قسم پر قرعہ اندازی کا حکم دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2329]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ یہی روایت سنن ابی داؤد میں بھی ہے وہاں پر لکھتے ہیں کہ یہ حدیث سنداً ضعیف ہے لیکن دیگر بہت سے شواہد کی بنا پر صحیح ہے دیکھیے: (سنن أبي داؤد (اردو)
مطبوعہ دار السلام .حدیث 3616)

علاوہ ازیں مذکورہ روایت کو دیگر محققین نے بھی صحیح قرار دیا ہے لہذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثة مسند الإمام أحمد: 13/ 535،   16/ 238، والإرواء: 8/ 275، وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عواد. رقم: 2329)
۔

(2)
اصل قانون یہی ہے کہ مدعی گواہ پیش کرے ورنہ مدعا علیہ قسم کھائے۔

(3)
حدیث میں مذکورہ صورت میں دونوں فریق مدعی بھی ہیں اور مدعا علیہ بھی۔
ایسی صورت میں دونوں قسم کھانے کا حق رکھتے ہیں لہٰذا قرعہ اندازی سے فیصلہ کر لیا جائے کہ کون قسم کھائے۔

(4)
بعض معاملات میں قرعہ اندازی سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2329