عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم راستے کے سلسلہ میں اختلاف کرو تو اسے سات ہاتھ کا کر دو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2339]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6128، ومصباح الزجاجة: 820)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/235، 303، 317) (صحیح)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2339
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ہاتھ سے مراد نیچے سےکہنی تک کا فاصلہ ہے جو دوبالشت یعنی آٹھ گرہ یا ڈیڑھ فٹ کےبرابر ہے۔ سات ذراع کی مقدار ساڑھے تین گز یا ساڑھے دس فٹ کے برابر ہے۔
(2) راستے سے مراد گلی کی چوڑائی بھی ہو سکتی ہے اور کھیتوں کے درمیان کھلا راستہ بھی۔ اس کی مقدار اتنی ہونی چاہیے کہ پیدل آدمی عورتیں اور گھوڑے گدھے یا خچر پر سوار آدمی سب آسانی سے گزر سکیں۔
(3) آج کا دور کاروں بسوں وغیرہ کا دور ہے اس لیے ان کی مناسبت سے مناسب حد مقرر کی جا سکتی ہے۔ نئی آبادیوں کا نقشہ تیار کرتے وقت گلیوں اور سڑکوں کی چوڑائی اس سے کم نہ رکھی جائے۔
(4) بنجر زمین کو کاشت کرتے وقت بھی جہاں راستہ رکھا جائے اس کی مقدار اسی طرح مقرر کی جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2339