ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو کسی ایسی چیز پر دعویٰ کرے جو اس کی نہیں ہے، تو وہ ہم میں سے نہیں، اور اسے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لینا چاہیئے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2319]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11933)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المناقب 5 (3508)، صحیح مسلم/الإیمان 27 (61)، مسند احمد (5/166) (صحیح)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2319
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) ہم میں سے نہیں۔ کا مطلب یہ ہے کہ اس کا یہ عمل مسلمانوں کا عمل نہیں اور اس کا ایمان کامل نہیں۔
(2) جہنم میں ٹھکانا بنا لینا چاہیے۔ کامطلب یہ ہے کہ اسے یقین ہونا چاہیے کہ وہ جہنم میں جائے گا لہٰذا اس سے بچنے کےلیے اسے اس گناہ سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اور اگر یہ گناہ ہو گیا ہے تو حق دار کو اس کا حق واپس کرکے توبہ کرکے جہنم سے بچ جانا چاہیے۔
(3) ارشاد نبوی ہے: جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اللہ اسے (جہنم کی) آگ پر حرام کر دیتا ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، باب الدلیل علی أن من مات علی التوحید دخل الجنة قطعا، حدیث: 26) اس کایہ مطلب نہیں کہ اسے اس گناہوں کی سزا نہیں ملے گی بلکہ یہ مطلب ہے اسے جنہم میں ہمیشہ رہنے کا عذاب نہیں ہو گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2319
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 217
حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ سے یہ سنا: ”جو شخص دانستہ اپنے باپ کی بجائے کسی اور کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس نے کفر کیا، اور جو ایسی چیز کا دعویٰ کرتا ہے جو اس کی نہیں ہے، وہ ہم میں سے نہیں ہے، اور وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔ اور جو شخص کسی کو کافر کہہ کر پکارتا ہے، یا اللہ کا دشمن کہتا ہے، حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو کفر اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:217]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) ادَّعَى: دعویٰ کرنا۔ (2) عَادَ عليه: بَاءَ اور رَجَعَ کے ہم معنی ہے پلٹنا، لوٹنا، پلٹ آتا ہے۔ فوائد ومسائل: (1) اپنے حقیقی نسب کا انکار کرکے کسی اور کا بیٹا بننا انتہائی مجرمانہ حرکت ہے، .....اور یہ کفر دون کفر ہوگا جو مخرج عن الملۃ نہیں ہے اور اس کام کو کفر قرار دیا جائے گا، اگر کسی تاویل اور ضرورت کے تحت ایسا کرتا ہے، تو یہ کفرانِ نعمت ہوگا، جیسا کہ آپ نے عورتوں کے بارے میں فرمایا ہے: "یَکْفُرْنَ الْعَشِیْرَ" وہ خاوند کی نا شکری اور احسان فراموش ہیں، اسی طرح یہ انسان اللہ اور باپ کے حق کا نمک حرام ہے۔ (2) اگر کوئی دانستہ طور پر کسی ایسی چیز کے اپنی ہونے کا دعوی ٰ کرتا ہے جو اس کی نہیں ہے تو یہ ایک جھوٹ ہے اور دوسرے کے مال پر غاصبانہ قبضہ ہے جو کسی صحیح اور کامل مومن کی شان کے منافی ہے، اس لیے آپ (ﷺ) نے فرمایا: ”وہ ہم میں سے نہیں۔ “ جیسا کہ نوح علیہ السلام کے بیٹے کے بارے میں فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ﴾”وہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے۔ “ یعنی اس کا طور طریقہ اور طرز عمل یا برتاؤ اور معاملہ مسلمانوں والا نہیں ہے اور یہ ایک ایسا قصور اور کھلم کھلا گناہ ہے جس کی سزا جہنم ہے الا یہ کہ انسان اس سے توبہ کرے یا اللہ تعالیٰ معاف فرما دے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 217
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3508
3508. حضرت ابوذر ؓسے روایت ہے، انھوں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص دانستہ طور پر اپنے آپ کو حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرتا ہے تو وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتا ہے۔ اور جو شخص ایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں اس کا کوئی رشتہ نہ ہوتووہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنالے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3508]
حدیث حاشیہ: مراد وہ شخص ہے جو ایسا کرنا درست سمجھے یا یہ بطور تغلیظ کے ہے، یا کفر سے ناشکری مراد ہے۔ واللہ أعلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3508
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3508
3508. حضرت ابوذر ؓسے روایت ہے، انھوں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص دانستہ طور پر اپنے آپ کو حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرتا ہے تو وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتا ہے۔ اور جو شخص ایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں اس کا کوئی رشتہ نہ ہوتووہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنالے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3508]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی ایسی چیز کادعویٰ کرنا حرام ہے جو اس کی نہ ہو، خواہ اس کا تعلق مال ومتاع سے ہو یا علم وفضل سے یا حسب ونسب سے، چنانچہ بعض لوگ اپنی قوم کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں وہ بھی اس وعید کی زد میں آتے ہیں جیسا کہ کچھ لوگ سادات کی طرف اپنی نسبت کرلیتے ہیں تاکہ عوام کی نگاہوں میں محترم ہوں۔ وہ اس حدیث کے مصداق ہیں۔ 2۔ اس کفر سے مراد کفرانِ نعمت ہے یا اس کامطلب یہ ہے کہ جو غیر کی نسبت کرنے کو اپنے لیے حلال سمجھتاہے وہ واقعی کافر ہے یا مذکورہ کلمہ ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر ہے۔ اگروہ توبہ کرلے تو یہ گناہ ساقط ہو جائے گا۔ 3۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: جب ثابت ہوا کہ اہل یمن حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد ہیں تو ان کاکسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا صحیح نہیں۔ امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے یہی مطلب معلوم ہوتاہے۔ (فتح الباري: 660/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3508