ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم کسی چرواہے کے پاس آؤ تو تین بار اسے آواز دو، اگر وہ جواب دے تو بہتر، ورنہ اپنی ضرورت کے مطابق بغیر خراب کئے دودھ دوہ کر پی لو، اور جب تم کسی باغ میں آؤ تو باغ والے کو تین بار آواز دو، اگر وہ جواب دے تو بہتر، ورنہ اپنی ضرورت کے مطابق پھل توڑ کر کھا لو، البتہ خراب مت کرو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2300]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4342، ومصباح الزجاجة: 806)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/7، 21، 85) (صحیح)» (ملاحظہ ہو: الإرواء: 2521)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال البوصيري: ’’ ھذا إسناد ضعيف،فيه الجريري واسمه سعيد بن إياس وقد اختلط بآخره ويزيد بن ھارون روي عنه بعد الإختلاط ‘‘ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 461
إذا أتيت على راع فناده ثلاث مرار فإن أجابك وإلا فاشرب في غير أن تفسد وإذا أتيت على حائط بستان فناد صاحب البستان ثلاث مرات فإن أجابك وإلا فكل في أن لا تفسد
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2300
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) کسی کے کھیت، باغ یا ریوڑ سے مالک کی اجازت کےبغیر کوئی چیز استعمال کرنا جائز نہیں۔
(2) اگر مالک موجود نہ ہو تو بھی کوشش کی جائے مالک کو بلا کر اس سے اجازت لے لی جائے۔
(3) اگر تین بار پکارنے کےبعد بھی مالک سے رابطہ نہ ہو سکے تو شدید ضرورت کےوقت بقدر ضرورت بلااجازت بھی پھل یا دودھ لیا جا سکتا ہے۔
(4) یہ اجازت محدود ہے۔ صرف وقتی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس اجازت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب دوسرے جائز ذرائع سے کھانا حاصل کرنا ممکن نہ ہو۔
(5) خرابی سےمراد یہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ چیز لے لی جائے، یا پھل اتارتے وقت بے احتیاطی سے کچے پھل اتار کر ضائع کردیے جائیں‘ یا درختوں کو نقصان پہنچایا جائے، یا دودھ لینے کےبجائے بکری یا اس کا بچہ ذبح کر لیا جائے۔ اس طرح کی تمام صورتیں ناجائز ہیں- (6) کوئی ضرورت مند جس شخص کی کوئی چیز استعمال کر لیے اسے ثواب ملتا ہے، خواہ اس کی اطلاع کےبغیر ہی استعمال کی گئی ہو۔ ارشاد نبوی ہے: ”جومسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا فصل کاشت کرتا ہے، پھر اس میں سے کوئی پرندہ یا انسان یا جانور کچھ کھا لیتا ہے تو وہ اس شخص کےلیے صدقہ ہو جاتا ہے۔“(صحيح البخاري، الحرث والمزارعة، باب فضل الزرع والغرس إذا أكل منه.....، حديث: 2320، و صحيح مسلم، المساقاة، باب فضل الغرس والزرع، حديث: 1552)
(7) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح اور حسن قرار دیا ہے، لہٰذا حسب ضرورت اس حدیث کےمطابق عمل کیا جا سکتا ہے۔ تفصیل کےلیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد: 17/98، 99، والإرواء للألبانى، رقم: 2521، والمشكاة، رقم: 2953، التحقيق الثانى)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2300