عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں اونٹ بیچا کرتا تھا، تو میں چاندی (جو قیمت میں ٹھہرتی) کے بدلے سونا لے لیتا، اور سونا (جو قیمت میں ٹھہرتا) کے بدلے چاندی لے لیتا، اور دینار درہم کے بدلے، اور درہم دینار کے بدلے لے لیتا تھا، پھر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں پوچھا کہ ایسا کرنا کیسا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم دونوں میں سے ایک لے لو اور دوسرا دیدے تو اپنے ساتھی سے اس وقت تک جدا نہ ہو جب تک کہ حساب صاف نہ ہو جائے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2262]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/البیوع 14 (3354، 3355)، سنن الترمذی/البیوع 24 (1242)، سنن النسائی/البیوع 48 (4586)، (تحفة الأشراف: 7053)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/33، 59، 89، 101، 139، 154)، سنن الدارمی/البیوع 43 (2623) (ضعیف)» (سماک بن حرب کے حفظ میں آخری عمر میں تبدیلی واقع ہو گئی تھی، اور کبھی رایوں کی تلقین قبول کر لیتے تھے اس لئے ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 132)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2262
اردو حاشہ: فائدہ: حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ کسی چیز کا سودا دیناروں سے طے ہوا تھا، خریدار نے اس روز کی شرح تبادلہ کے مطابق اتنے دیناروں کے درہم ادا کر دیے تو یہ جائز ہے جبکہ ادائیگی اسی مجلس میں کر دی جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2262
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 670
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام` سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ہی روایت ہے کہ ”میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول! میں بقیع میں اونٹوں کی تجارت کرتا ہوں۔ دینار میں فروخت کر کے درہم وصول کرتا ہوں اور (کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ) میں فروخت تو درہم میں کرتا ہوں اور دینار وصول کرتا ہوں (یعنی) دینار کے بدلے میں درہم اور درہم کے بدلے میں دینار لیتا ہوں۔ اس کے عوض وہ لیتا ہوں اور اس کے بدلے میں یہ دیتا ہوں۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر اسی روز کے بھاؤ سے ان کا تبادلہ کر لو اور خرید و فروخت کرنے والوں کے ایک دوسرے سے جدا ہونے سے پہلے رقم کا کوئی حصہ کسی کے ذمہ باقی نہ رہے تو جائز ہے۔“ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 670»
تخریج: «أخرجه أبوداود، البيوع، باب في اقتضاء الذهب من الورق، حديث:3354، والترمذي، البيوع، حديث:1242، والنسائي، البيوع، حديث:4586، وابن ماجه، التجارات، حديث: 2262، وأحمد:2 /139، والحاكم:2 /44.»
تشریح: یہ حدیث اس کی دلیل ہے کہ سونے چاندی کا تبادلہ اس صورت میں جائز ہے جبکہ دست بدست ہو اور پوری ادائیگی موقع پر ہو‘ ادھار نہ ہو۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 670
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3354
´چاندی کے بدلے سونا لینا کیسا ہے؟` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں بقیع میں اونٹ بیچا کرتا تھا، تو میں (اسے) دینار سے بیچتا تھا اور اس کے بدلے درہم لیتا تھا اور درہم سے بیچتا تھا اور اس کے بدلے دینار لیتا تھا، میں اسے اس کے بدلے میں اور اسے اس کے بدلے میں الٹ پلٹ کر لیتا دیتا تھا، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تھے، میں نے کہا: اللہ کے رسول! ذرا سا میری عرض سن لیجئے: میں آپ سے پوچھتا ہوں: میں بقیع میں اونٹ بیچتا ہوں تو دینار سے بیچتا ہوں اور اس کے بدلے درہم لیتا ہوں اور درہم سے بیچتا ہوں اور دینار لیتا ہوں، ی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3354]
فوائد ومسائل: اس سے فائدہ ہوا کہ مختلف کرنسیوں کا تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ جائز ہے۔ لیکن لازم ہے کہ بازار میں جاری اس روز کے نرخ سے ہو اور لین دین نقد ہو ادھار نہ ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3354
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1242
´صرف کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں بقیع کے بازار میں اونٹ بیچا کرتا تھا، میں دیناروں سے بیچتا تھا، اس کے بدلے چاندی لیتا تھا، اور چاندی سے بیچتا تھا اور اس کے بدلے دینار لیتا تھا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ حفصہ رضی الله عنہا کے گھر سے نکل رہے ہیں تو میں نے آپ سے اس کے بارے میں پوچھا آپ نے فرمایا: ”قیمت کے ساتھ ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔“[سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1242]
اردو حاشہ: نوٹ: (اس کے راوی ”سماک“ اخیر عمر میں مختلط ہوگئے تھے اور تلقین کو قبول کرتے تھے، ان کے ثقہ ساتھیوں نے اس کو ابن عمر رضی اللہ عنہما پر موقوف کیا ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1242