ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے قسم کھائی، اور «إن شاء الله» کہا، تو اس کا «إن شاء الله» کہنا اسے فائدہ دے گا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2104]
وضاحت: ۱؎: فائدہ یہ ہو گا کہ اگر قسم کے خلاف بھی کرے تو کفارہ لازم نہ ہو گا، اور آدمی جھوٹا نہ ہو گا، اس لئے کہ اس کی قسم اللہ تعالی ہی کی مشیت پر معلق تھی، معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے ایسا نہ چاہا تو اس نے قسم کے خلاف عمل کیا، یہ قسم کے کفارے سے بچنے کا عمدہ طریقہ ہے، صحیحین میں ہے کہ سلیمان بن داود (علیہما الصلاۃ والسلام) نے فرمایا: میں آج کی رات ستر عورتوں کے پاس جاؤں گا، اخیر حدیث تک، اس میں یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ ان شاء اللہ کہتے تو ان کی بات غلط نہ ہوتی“، اور جمہور کا مذہب ہے کہ جب قسم میں «إن شاء الله» لگا دے تو وہ منعقد نہ ہو گی، یعنی توڑنے میں کفارہ واجب نہ ہو گا، لیکن شرط یہ ہے کہ «إن شاء الله» قسم کے ساتھ ہی کہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2104
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: ان شاء اللہ کہنے سے قسم ختم ہو جاتی ہے پھر اگر وہ کام نہ کیا جائے جس کا ذکر کیا گیا تھا تو قسم توڑنے کا گناہ نہیں ہوگا اور کفارہ نہیں دینا پڑے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قسم تاکیدی عزم ظاہر کرنے کے لیے ہوتی ہے اور ان شاء اللہ کا مطلب ہے اگر اللہ نے چاہا تو میں ایسا کروں گا۔ اور مستقبل کے کاموں میں بندے کو اللہ کی مرضی معلوم نہیں ہوتی تو اس میں گویا اس عزم کی نفی ہے اور یہ احتمال آ گیا کہ ممکن ہے میں یہ کام کرسکوں یا نہ کرسکوں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2104
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1532
´قسم میں ان شاءاللہ کہنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے قسم کھائی اور ان شاءاللہ کہا، وہ «حانث» نہیں ہوا“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1532]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی اس نے قسم نہیں توڑی، اور ایسی قسم توڑنے سے اس پر کفارہ نہیں ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1532