ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا بابرکت ہے وہ ذات جو ہر چیز کو سنتی ہے، میں خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کی بات سن رہی تھی، کچھ باتیں سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے شوہر کی شکایت کر رہی تھیں کہ میرا شوہر میری جوانی کھا گیا، میں اس کی اولاد جنتی رہی، جب میں بوڑھی ہو گئی اور ولادت کا سلسلہ منقطع ہو گیا، تو اس نے مجھ سے ظہار کر لیا، اے اللہ! میں تجھ ہی سے شکوہ کرتی ہوں، وہ ابھی وہاں سے ہٹی بھی نہیں تھیں کہ جبرائیل علیہ السلام یہ آیتیں لے کر اترے: «قد سمع الله قول التي تجادلك في زوجها وتشتكي إلى الله»(سورة المجادلة: 1)”اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں جھگڑ رہی تھی اور اللہ سے شکوہ کر رہی تھی“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2063]
وضاحت: ۱؎: اپنی مصیبت اور دکھ کا شکوہ کر رہی تھی، تب اللہ تعالی نے یہ حکم اتارا، اور ظہار کا کفارہ بیان فرمایا، اور عورت کی داد رسی کی شوہر نے کفارہ دے کر پھر اس کو بیوی کی طرح سمجھا، اور اس سے صحبت کی۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2063
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اللہ تعالی سننے کی صفت سے متصف ہے اور اس کی سماعت بندوں کی طرح محدود نہیں بلکہ لامحدود ہے۔
(2) حضرت خولہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بڑھاپے کا ذکر اس لیے کیا کہ اگر وہ جوان ہوتیں تو ان کےلیے دوسرا نکاح کرلینا آسان ہوتا، کوئی نا کوئی اس کی جوانی کی پیش نظر یا اولاد کی امید میں ان سے نکاح کرلیتا، اس طرح ان کےلیے بچوں کی دیکھ بھال آسان ہوجاتی۔
(3) مصیبت میں اللہ ہی سے دعا کرنی چاہیے۔ اللہ تعالی تمام مشکلات کا حل کرنے والا ہے۔
(4) رسول اللہﷺ اپنی مرضی سےکوئی شرعی حکم جاری نہیں کرسکتے تھے بلکہ اللہ کی طرف سے جو حکم نازل ہوتا تھا اسی پر عمل کرتے اور کرواتے تھے، اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ قُل ما يَكونُ لى أَن أُبَدِّلَهُ مِن تِلقائِ نَفسى إِن أَتَّبِعُ إِلّا ما يوحى إِلَىَّ إِنّى أَخافُ إِن عَصَيتُ رَبّى عَذابَ يَومٍ عَظيمٍ﴾(یونس: 10/ 15) ”کہہ دیجئے! مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس (قرآن) میں ترمیم کروں میں تو اسی کی پیروی کروں گا جو کچھ میرے پاس وحی کے ذریعے سے پہنچا ہے۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے بھی ایک بڑے دن کے عذاب کاخوف ہے۔“
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2063