عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! جو کوئی چاہے ہم اس سے لعان کر لیں کہ چھوٹی سورۃ نساء (سورۃ الطلاق) اس آیت کے بعد اتری ہے جس میں چار ماہ دس دن کی عدت کا حکم ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2030]
وضاحت: ۱؎: اور سورہ طلاق میں یہ آیت «وَأُوْلاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ»(سورة الطلاق: 4) حاملہ عورتوں کے باب میں ناسخ ہو گی پہلی آیت کی البتہ غیر حاملہ وفات کی عدت چار مہنیے دس دن گزارے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (2307) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 451
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2030
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) سورۂ طلاق میں یہ حکم ہے کہ حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔ یہ حکم بعد میں نازل ہوا۔ اور سورۂ بقرہ کی وہ آیت اس سے پہلے نازل ہوئی تھی جس میں یہ حکم ہے کہ بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے (البقرۃ234: 2) لہٰذا حاملہ عورت کا خاوند اگر فوت ہوجائے تو اس کی عدت چار ماہ دس دن نہیں بلکہ وضع حمل ہے، خواہ حمل کی مدت کم ہو یا زیادہ۔ اور یہی مسئلہ صحیح ہے۔
(2) جو عورت حمل سے نہ ہو اور اس کا خاوند فوت ہو جائے، اس کےلیے یہ حکم باقی ہے کہ وہ چار ماہ دس دن عدت گزارے، خواہ اس کی رخصتی ہوئی ہو یا صرف نکاح ہوا ہو اور رخصتی نہ ہوئی ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2030