علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث بیان کروں تو تم یہی (خیال گمان) رکھو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سب سے زیادہ عمدہ، اور ہدایت و تقویٰ میں سب سے بڑھی ہوئی ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 20]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10177، ومصباح الزجاجة: 8)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/122، 130)، سنن الدارمی/المقدمة 50 (612) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی حدیثوں کو صحیح محمل پر رکھو اور مناسب موقع پر فٹ کرو، اور اس میں تعارض اور تناقض کا خیال نہ کرو، اور جو حدیث کا منطوق ہو اسی کو تقوی اور ہدایت جانو، اور اس کے خلاف کو مطلقاً بہتر اور ہدایت نہ سمجھو۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث20
اردو حاشہ: (1) مذکورہ دونوں حدیثوں کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی ایسی صحیح حدیث سامنے آئے جس سے بظاہر کوئی نامناسب مفہوم سمجھ میں آتا ہو، تو اس کی تشریح ایسے انداز سے کی جانی چاہیے، جس سے وہ ظاہری قباحت باقی نہ رہے، کیونکہ بعض اوقات ایک حدیث کو ایک سے زیادہ انداز سے سمجھا جانا ممکن ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کا وہ مطلب صحیح ہو گا، جس کی تائید قرآن مجید اور دوسری صحیح احادیث سے ہوتی ہو۔
(2) جس طرح قرآن مجید کی بعض آیات میں ایسے مسائل بیان کیے گئے ہیں جو عقل سے ماورا ہیں (خلاف عقل نہیں) اسی طرح بعض اوقات کسی حدیث میں بھی ایسا مسئلہ بیان ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں صحیح طرز عمل یہی ہے کہ حدیث پر ایمان رکھا جائے اور کہا جائے کہ اس کا مطلب کماحقہ اللہ ہی جانتا ہے۔ مثلا اللہ تعالیٰ کی صفات یا قبر اور برزخ کے حالات بیان کرنے والی احادیث۔ یہی طرزعمل سب سے بہتر اور ہدایت و تقویٰ سے قریب تر ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 20