معاویہ بن حیدۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم اپنی شرمگاہیں کس قدر کھول سکتے ہیں اور کس قدر چھپانا ضروری ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیوی یا لونڈی کے علاوہ ہمیشہ اپنی شرمگاہ چھپائے رکھو“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر لوگ ملے جلے رہتے ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم ایسا کر سکو کہ تمہاری شرمگاہ کوئی نہ دیکھے تو ایسا ہی کرو“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر ہم میں سے کوئی اکیلا ہو؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں سے اللہ زیادہ لائق ہے کہ اس سے شرم کی جائے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1920]
وضاحت: ۱؎: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی طرح کشف ستر کی اجازت نہ دی، اب جو لوگ حمام میں نہلانے والوں یا حجام کے سامنے ننگے ہو جاتے ہیں، یا عورتیں ایک دوسری کے سامنے، یہ شرعی نقطہء نظر سے بالکل منع ہے، بوقت ضرورت تنہائی میں ننگے ہونا درست ہے،جیسے نہاتے وقت یہ نہیں کہ بلاضرورت ننگے ہو کر بیٹھے، اللہ تعالی سے اور فرشتوں سے شرم کرنا چاہئے، سبحان اللہ جیسا شرم و حیا کا اعتبار دین اسلام میں ہے ویسا کسی دین میں نہیں ہے، یہود اور نصاری ایک دوسرے کے سامنے ننگے نہاتے ہیں، اور مشرکین عہد جاہلیت میں جاہلیت کے وقت ننگے ہو کر طواف اور عبادت کیا کرتے تھے، اور اب بھی یہ رسم ہندوؤں میں موجود ہے، مگر اسلام نے ان سب ہی باتوں کو رد کر دیا، تہذیب، حیاء اور شرم سکھائی۔
احفظ عورتك إلا من زوجتك أو ما ملكت يمينك إذا كان القوم بعضهم في بعض قال إن استطعت أن لا يراها أحد فلا يراها إذا كان أحدنا خاليا قال فالله أحق أن يستحيا منه من الناس
احفظ عورتك إلا من زوجتك أو ما ملكت يمينك إذا كان القوم بعضهم في بعض قال إن استطعت أن لا يرينها أحد فلا يرينها إذا كان أحدنا خاليا قال الله أحق أن يستحيا منه من الناس
احفظ عورتك إلا من زوجتك أو ما ملكت يمينك إن كان القوم بعضهم في بعض قال فإن استطعت أن لا تريها أحدا فلا ترينها إن كان أحدنا خاليا قال فالله أحق أن يستحيا منه من الناس
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1920
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) بیوی اور لونڈی کے سوا ہر کسی سے شرمگاہ کو محفوظ رکھنے کا مطلب ناجائز تعلقات اور بدکاری سے اجتناب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشا د ہے: ﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا﴾(بنی اسرائیل: 32) ”زنا کے قریب بھی نہ جاؤ، یہ بے حیائی اور بہت برا راستہ ہے۔“ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اعضائے مستورہ پر کسی کی نظر نہ پڑنے دی۔
(2) عام طور پر مرد مردوں سے اور عورتیں عورتوں سے اس معاملہ ميں احتیاط کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ یہ غلط رویہ ہے۔ بغیر کسی مجبوری کے مرد دوسرے مرد کے اور عورت دوسری عورت کے اعضائے مستورہ کو نہیں دیکھ سکتے۔
(3) اس حدیث سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ خاوند بیوی ایک دوسرے کے اعضائے مستورہ دیکھ لیں تو گناہ نہیں۔ آئندہ روایتوں میں اس کی ممانعت مذکور ہے لیکن وہ دونوں روایتیں ضعیف ہیں۔
(4) تنہائی میں بھی بلا ضرورت بالکل ننگا ہونے سے اجتناب کرنا چاہیے اگرچہ غسل وغیرہ کے وقت تمام کپڑے اتارنا جائز ہے۔ (صحیح البخاري، الغسل، باب من اغتسل عریانا وحدہ فی خلوۃ، ومن تستر فالتستر أفضل، حدیث: 278)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1920
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري Q278
´جس نے تنہائی میں ننگے ہو کر غسل کیا اور جس نے کپڑا باندھ کر غسل کیا اور کپڑا باندھ کر غسل کرنا افضل ہے` «. . . وَقَالَ بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " اللَّهُ أَحَقُّ أَنْ يُسْتَحْيَا مِنْهُ مِنَ النَّاسِ " . . . .» ”. . . اور بہز بن حکیم نے اپنے والد سے، انہوں نے بہز کے دادا (معاویہ بن حیدہ) سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ لوگوں کے مقابلے میں زیادہ مستحق ہے کہ اس سے شرم کی جائے۔ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ مَنِ اغْتَسَلَ عُرْيَانًا وَحْدَهُ فِي الْخَلْوَةِ، وَمَنْ تَسَتَّرَ فَالتَّسَتُّرُ أَفْضَلُ:: Q278]
� تشریح: اس کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ اصحاب سنن نے روایت کیا ہے۔ پوری حدیث یوں ہے کہ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم کن شرمگاہوں پر تصرف کریں اور کن سے بچیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صرف تمہاری بیوی اور لونڈی تمہارے لیے حلال ہے۔ میں نے کہا: حضور جب ہم میں سے کوئی اکیلا ہو تو ننگا غسل کر سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ زیادہ لائق ہے کہ اس سے شرم کی جائے۔
ابن ابی لیلیٰ نے اکیلے بھی ننگا نہانا ناجائز کہا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کا رد کیا اور بتلایا کہ یہ جائز ہے مگر ستر ڈھانپ کر نہانا افضل ہے۔ حدیث میں حضرت موسیٰ علیہ السلام و حضرت ایوب علیہ السلام کا نہانا مذکور ہے۔ اس سے ترجمہ باب ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 278
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4017
´ننگے ہونے کا بیان۔` معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اپنا ستر کس سے چھپائیں اور کس سے نہ چھپائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ستر سب سے چھپاؤ سوائے اپنی بیوی اور اپنی لونڈیوں کے“ وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جب لوگ ملے جلے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم سے ہو سکے کہ تمہارا ستر کوئی نہ دیکھے تو اسے کوئی نہ دیکھے“ وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جب ہم میں سے کوئی تنہا خالی جگہ میں ہو؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کے بہ نسبت اللہ زیادہ حقدار ہے کہ اس سے شرم کی جائے۔“[سنن ابي داود/كتاب الحمام /حدیث: 4017]
فوائد ومسائل: تنہائی میں بھی بلاوجہ ننگا ہو بیٹھنا جائز نہیں اور تعجب ہے کہ ہمارے ہاں کے جاہل اور بدعتی ومشرک لوگ ننگ دھڑنگ بے دین اور بے شعور لوگوں کو ولی اللہ سمجھتے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4017