ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان سے شادی کی تو ان کے پاس تین دن رہے، اور فرمایا: ”تم میرے نزدیک کم تر نہیں ہو اگر تم چاہتی ہو میں سات روز تک تمہارے پاس رہ سکتا ہوں، اس صورت میں میں سب عورتوں کے پاس سات سات روز تک رہوں گا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1917]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1917
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا نام ہند بنت ابو امیہ ہے۔ ان کا نکاح حضرت ابو سلمہ سے ہوا تھا۔ حضرت ابو سلمہ کا نام عبداللہ بن عبدالاسد تھا، وہ رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی برہ بنت عبدالمطلب کے بیٹے تھے۔ جب 4 ہجری میں ان کی وفات ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا۔
(2) اگر دلہن ثیب (بیوہ یا مطلقہ) ہو تب بھی اس کے پاس سات دن رہنا درست ہے لیکن اس صورت میں دوسری بیوی یا بیویوں کے پاس بھی سات سات دن رہ کر باری شروع کرنا ہوگی۔
(3) رسول اللہ ﷺ کی اس پیشکش کے جواب میں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے تین دن کی مدت کا انتخاب فرمایا تھا۔ (صحیح مسلم، الرضاع، باب قدر ما تستحقه البکر و الثیب من اقامة الزوج عندھا عقب الزفاف، حدیث: 1460)
(4) اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ اس صورت میں باری جلد ملنے کی امید تھی۔ شرعی حدود میں رہتے ہوئے بیویوں کے جذبات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1917
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2122
´کنواری عورت سے نکاح کرنے پر کتنے دن اس کے ساتھ رہے؟` ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان سے نکاح کیا تو ان کے پاس تین رات رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسے اپنے خاندان کے لیے بے عزتی مت تصور کرنا، اگر تم چاہو تو میں تمہارے پاس سات رات رہ سکتا ہوں لیکن پھر اپنی اور بیویوں کے پاس بھی سات سات رات رہوں گا۔“[سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2122]
فوائد ومسائل: مسئلے کی توضیح اگلی حدیث (2124) میں آرہی ہے اس حدیث میں یہ ہے کہ اگر کسی نے بیوہ کے ہاں سات دن اقامت کی تو تین دن والی خصوصیت ختم ہو جائے گی اور باقیوں کے ہاں بھی سا ت دن ہی رکنا ہو گا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2122