عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا، تو انہوں نے ایک بیٹی چھوڑی، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میری شادی اس لڑکی سے میرے ماموں قدامہ رضی اللہ عنہ نے کرا دی جو اس لڑکی کے چچا تھے، اور اس سے مشورہ نہیں لیا، یہ اس وقت کا ذکر ہے جب اس کے والد کا انتقال ہو چکا تھا، اس لڑکی نے یہ نکاح ناپسند کیا، اور اس نے چاہا کہ اس کا نکاح مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے کر دیا جائے، آخر قدامہ رضی اللہ عنہ نے اس کا نکاح مغیرہ ہی سے کر دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1878]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7752، ومصباح الزجاجة: 670)، ورواہ أحمد (2/130، والدار قطنی فيسننہ و البیہقی في سننہ 7/113، من طریق عمربن حسین، عن نافع عن ابن عمر، وأخرجہ: الحاکم2/16و البیہقی 7/121) (حسن)» (اس کی سند میں عبد اللہ بن نافع ضعیف ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے حدیث حسن ہے، «کما فی التخریج» )
وضاحت: ۱؎: شاید عثمان رضی اللہ عنہ کی بیٹی جوان ہو گی، اور جوان لڑکی کا نکاح بغیر اس کی اجازت کے نافذ نہیں ہوتا، حنفیہ کا یہ مذہب ہے کہ نابالغ لڑکی کا نکاح اگر باپ دادا کے سوا اور کوئی ولی کر دے تو وہ درست اور جائز ہو گا، لیکن لڑکی کو بلوغت کے بعد فسخ نکاح کا اختیار ہے، اگر وہ اس نکاح سے ناراض ہو تو وہ فسخ نکاح کر سکتی ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1878
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مصنف نے باب کا یہ عنوان مقرر کر کے اشارہ کیا ہے کہ جس طرح باپ اپنی نابالغ بیٹی کا نکاح اس سے مشورہ لیے بغیر کر سکتا ہے۔ دوسرا کوئی سرپرست مثلاً ماموں یا چچا وغیرہ اس طرح نہیں کر سکتا بلکہ بچی سے مشورہ لینا چاہیے۔ بظاہر اس حدیث میں کوئی لفظ ایسا نہیں جس سے معلوم ہو کہ وہ لڑکی بالغ تھی یا نا بالغ۔ ممکن ہے کسی دوسری سند سے اس کی صراحت مروی ہو کہ وہ نابالغ تھی۔ واللہ أعلم (2) بالغ ہونے کی صورت میں تو اس کی رضا مندی ضروری تھی اور چونکہ پہلا نکاح رضامندی کے بغیر کیا گیا تھا اس لیے اسے فسخ کر دیا گیا۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ موصوفہ بالغ تھی .........رضی اللہ عنہا....
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1878