سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عامل صدقہ (زکاۃ وصول کرنے والا) آیا تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑا، اور اس کے میثاق (عہد نامہ) میں پڑھا کہ الگ الگ مالوں کو یکجا نہ کیا جائے، اور نہ مشترک مال کو زکاۃ کے ڈر سے الگ الگ کیا جائے، ایک شخص ان کے پاس ایک بھاری اور موٹی سی اونٹنی لے کر آیا، عامل زکاۃ نے اس کو لینے سے انکار کر دیا، آخر وہ دوسری اونٹنی اس سے کم درجہ کی لایا، تو عامل نے اس کو لے لیا، اور کہا کہ کون سی زمین مجھے جگہ دے گی، اور کون سا آسمان مجھ پر سایہ کرے گا؟ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مسلمان کا بہترین مال لے کے جاؤں گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1801]
وضاحت: ۱؎: یعنی زکاۃ زیادہ یا کم دینے کے ڈر سے زیادہ کا اندیشہ مالک کو ہو گا، اور کم کا خوف زکاۃ وصول کرنے والے کو ہو گا، یہ حکم زکاۃ دینے والے اور زکاۃ وصول کرنے والے دونوں کے لیے ہے۔ الگ الگ کو یکجا کرنے کی صورت یہ ہے کہ مثلاً تین آدمی ہیں ہر ایک کی چالیس چالیس بکریاں ہیں، الگ الگ کی صورت میں ہر ایک کو ایک ایک بکری دینی پڑے گی اس طرح مجموعی طور پر تین بکریاں دینی پڑتی ہیں مگر جب زکاۃ وصول کرنے والا ان کے پاس پہنچتا ہے تو وہ سب بکریاں جمع کر لیتے ہیں اور تعداد ایک سو بیس بن جاتی ہے، اس طرح ان کو صرف ایک بکری دینی پڑتی ہے۔ اور اکٹھا بکریوں کو الگ الگ کرنے کی صورت یہ ہے کہ دو آدمی اکٹھے ہیں اور دو سو ایک بکریاں ان کی ملکیت میں ہیں اس طرح تین بکریاں زکاۃ میں دینا لازم آتا ہے مگر جب زکاۃ وصول کرنے والا ان کے پاس پہنچتا ہے تو دونوں اپنی اپنی بکریاں الگ کر لیتے ہیں اس طرح ان میں سے ہر ایک کے ذمہ ایک ایک ہی بکری لازم آتی ہے، خلاصہ یہ کہ اس طرح کی حیلہ سازی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ زکاۃ وصول کرنے والے کو منع کرنے کی صورت یہ ہے کہ دو آدمی ہیں جو نہ تو باہم شریک (ساجھی دار) ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کے ساتھ اپنا مال ملائے ہوئے ہیں ان دونوں میں سے ہر ایک کے پاس ایک سو بیس یا اس سے کم و زیادہ بکریاں ہیں تو اس صورت میں ہر ایک کو ایک بکری زکاۃ میں دینی پڑتی ہے، مگر زکاۃ وصول کرنے والا ان دونوں کی بکریاں از خود جمع کر دیتا ہے، اور ان کی مجموعی تعداد دو سو سے زائد ہو جاتی ہے، اس طرح وہ تین بکریاں وصول کر لیتا ہے اور جمع شدہ کو الگ الگ کرنے کی صورت یہ ہے کہ مثلاً ایک سو بیس بکریاں تین آدمیوں کی ملکیت میں ہیں اس صورت میں صرف ایک ہی بکری زکاۃ میں دینی پڑتی ہے، مگر زکاۃ وصول کرنے والا اسے تین الگ الگ حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے اور اس طرح تین بکریاں وصول کر لیتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (1580) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 444
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1801
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ بعض محققین نے صحیح اور بعض نے حسن قرار دیا ہے اور اس کے متابعات اور شواہد ذکر کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحدیثة، مسند الإمام أحمد: 133، 132/31، وصحیح ابی داؤد (مفصل) رقم: 1409، وسنن ابن ماجة للدکتور بشار عواد، حدیث: 1801)
(2) حضرت سوید بن غفلہ رحمۃ اللہ علیہ رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں اسلام قبول کرچکے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ کی زیارت نہیں کرسکے۔ مدنیہ منورہ اس وقت پہنچے جب صحابہ کرام نبی اکرم ﷺ کی تدفین سے فارغ ہو چکے تھے، اس لیے ان کا شمار صحابہ کرام میں نہیں ہوتا، البتہ کبار تابعین میں شامل ہیں جنہیں بہت سے صحابہ کرام کی زیارت اور ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔
(3) ”عامل ہمارے پاس آیا“ یعنی ہمارے قبیلے کی زکاۃ وصول کرنے کے لیے آیا۔ حضرت سوید بن غفلہ رحمۃ اللہ علیہ جعفی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔
(4) حکم نامے سے مراد وہ تحریر تھی جو رسول اللہ ﷺ نے لکھوا کر عامل کو دی تھی تاکہ اس کے مطابق زکاۃ وصول کریں۔ حضرت سوید ؓ نے اس صحابی سے ملاقات کی اور نبی ﷺ کی تحریری ہدایات خود پڑھیں۔
(5) زکاۃ میں درمیانہ درجے کا مال وصول کرنا چاہیے نہ بہترین جانور لیا جائے جس سے مالک کو نقصان ہو اور نہ بالکل نکما جانور لیا جائے جس سے کسی غریب کو فائدہ ہی نہ ہو۔
(6) صحابہ کرام جب کسی عہدے پر فائز ہوتے تھے تو عدل و انصاف کا انتہائی خیال رکھتے تھے۔ الگ الگ ریوڑوں کو جمع کرنے اور اکٹھے ریوڑ کو الگ الگ کرنے کی وضاحت کے لیے اگلے باب میں حدیث: 1805 کا فائدہ نمبر: 8 ملاحظہ فرمائیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1801