انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھا: «بسم الله الرحمن الرحيم» یہ فریضہ زکاۃ کا نصاب ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر فرض قرار دیا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اس کا حکم دیا، زکاۃ کے اونٹوں کی مقررہ عمروں میں کمی بیشی کی تلافی اس طرح ہو گی کہ جس کو زکاۃ میں جذعہ (۴ چار سال کی اونٹنی) ادا کرنی ہو جو اس کے پاس نہ ہو بلکہ حقہ (تین سالہ اونٹنی) ہو تو وہی لے لی جائے گی، اور کمی کے بدلے دو بکریاں لی جائیں گی، اگر اس کے پاس ہوں، ورنہ بیس درہم لیا جائے گا، اور جس شخص کو حقہ بطور زکاۃ ادا کرنا ہو اور اس کے پاس وہ نہ ہو بلکہ بنت لبون ہو تو اس سے بنت لبون قبول کر لی جائے گی، اور وہ اس کے ساتھ دو بکریاں یا بیس درہم دے گا، اور جس کو زکاۃ میں بنت لبون ادا کرنی ہو اور اس کے پاس بنت لبون نہ ہو بلکہ حقہ ہو تو اس سے حقہ لیا جائے گا، اور زکاۃ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں دے گا، اور جسے زکاۃ میں بنت لبون ادا کرنی ہو، اس کے پاس بنت لبون نہ ہو بلکہ بنت مخاض ہو تو اس سے بنت مخاض لی جائے گی، اور ساتھ میں زکاۃ دینے والا بیس درہم یا دو بکریاں دے گا، اور جس کو زکاۃ میں بنت مخاض ادا کرنی ہو اور اس کے پاس وہ نہ ہو بلکہ بنت لبون ہو تو اس سے بنت لبون لے لی جائے گی، اور زکاۃ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس دے گا، اور جس کے پاس بنت مخاض نہ ہو بلکہ ابن لبون ہو تو اس سے وہی لے لیا جائے گا، اور اس کو اس کے ساتھ کچھ اور نہ دینا ہو گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1800]
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ اگر پورے سن کی اونٹنی نہ ہو تو اس سے ایک سال زیادہ کا نر اونٹ اسی کے برابر سمجھا جائے گا، نہ صرف مال والے کو کچھ دینا ہو گا، نہ زکاۃ لینے والے کو کچھ پھیرنا پڑے گا۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1800
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اونٹوں کی زکاۃ میں جن عمروں کی اونٹنیاں وصول کی جاتی ہیں وہ یہ ہیں:
(ا) بنت مخاض، یعنی ایک سالہ اونٹنی۔
(ب) بنت لبون یعنی دو سالہ اونٹنی۔
(ج) حقہ، یعنی تین سالہ اونٹنی (د) جذعہ، یعنی چار سالہ اونٹنی۔
(2) زکاۃ میں صرف اونٹنیاں، یعنی مونث ہی قبول کی جاتی ہیں۔ صرف ابن لبون (دو سالہ مذکر) بنت مخاض (ایک سالہ مونث) کے متبادل کے طور پر وصول کیا جاسکتا ہے۔ (3) اگر ریوڑ میں مطلوبہ عمر کی مونث موجود نہ ہو تو اس سے بڑی یا چھوٹی عمر کی مونث بھی وصول کی جاسکتی ہے۔ عمر کے ایک سال کے فرق کے متبادل دو بکریاں قرار دی گئی ہیں، لہٰذا زکاۃ میں اگر مطلوبہ عمر سے کم عمر کی اونٹنی وصول کی گئی ہے تو ساتھ دو بکریاں یا ان کی قیمت مزید وصول کی جائے گی تاکہ مطلوبہ زکاۃ اور وصول شدہ کے فرق کا ازالہ ہو جائے۔ اسی طرح اگر مطلوبہ عمر سے زیادہ عمر کی اونٹنی وصول کی گئی ہے تو یہ فرق دو بکریاں یا ان کی قیمت کی صورت میں واپس کیا جائے گا تاکہ واجب مقدار سے زیادہ زکاۃ وصول نہ کی جائے۔
(4) ابن لبون کو چونکہ بنت مخاض کے برابر قرار دیا گیا ہے، لہٰذا ایک سالہ مونث کی جگہ دو سالہ مذکر اونٹ کی ادائیگی کی صورت میں حساب برابر ہو جائے گا۔ نہ زکاۃ دینے والے سے مزید کسی چیز کا مطالبہ کیا جائے گا اور نہ زکاۃ وصول کرنے والا کوئی چیز واپس کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔
(5) دو بکریوں کی قیمت بیس درہم مقرر کی گئی ہے، یہ اس دور کے مطابق ان کی اوسط قیمت تھی۔ موجودہ دور میں ماحول کے مطابق بازار میں بکریوں کی جو قیمت ہو، اس کے مطابق صول کرنی چاہیے۔
(6) اونٹوں، گایوں اور بکریوں میں سے ہر ایک ریوڑ کی کل تعدا د شمار کرتے ہوئے بچے، بڑے، مذکر، مونث تمام جانور شمار کیے جائیں گے لیکن زکاۃ ادا کرتے وقت صرف مقررہ عمر کے جانور ہی دیے جائیں گے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1800