اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دن بدلی میں روزہ افطار کر لیا، پھر سورج نکل آیا، ابواسامہ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام سے کہا: پھر تو لوگوں کو روزے کی قضاء کا حکم دیا گیا ہو گا؟، انہوں نے کہا: یہ تو ضروری ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1674]
وضاحت: ۱؎: یعنی قضا تو کرنا ضروری ہے ایسی حالت میں اس پر سب کا اتفاق ہے کہ جب دھوکہ سے روزہ کھول ڈالے بعد میں معلوم ہو کہ دن باقی تھا اور سورج نہیں ڈوبا تھا تو قضا لازم آئے گی، لیکن کفارہ لازم نہ ہو گا۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1674
اردو حاشہ: فائده: حدیث میں مذکورہ صورت بھول کر کھانے پینے سے مختلف ہے۔ کیونکہ انھوں نے بھول کر نہیں کھایا پیا بلکہ ارادے سے اپنے خیال میں روزہ کھولا تھا۔ اگرچہ غلط فہمی کی بنا پر وقت سے پہلے کھول دیاتھا۔ اس غلط فہمی کی بنا پر وہ گناہ گار تو نہیں ہوئے لیکن روزہ یقیناً ناقص ہوگیا۔ ایسے روزے کی قضا کی بابت علماء میں اختلاف ہے۔ تاہم جمہور علماء کے نزدیک ایسی صورت میں افطار کیے ہوئے روزے کی قضا واجب ہے۔ تفصیل کےلئے دیکھئے: (فتح الباری: 255/4)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1674
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1959
1959. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں ایک دن مطلع ابر آلود تھا۔ ہم نے روزہ افطار کرلیا۔ پھر اس کے بعد سورج نکل آیا۔ ہشام سے دریافت کیا گیا: پھر لوگوں کو قضا کا حکم دیا گیا ہوگا؟انھوں نے کہا: اس کے بغیر اور کیا چارہ تھا؟حضرت معمر کہتے ہیں کہ میں نے ہشام کو یہ کہتے ہوئے سنا مجھے معلوم نہیں کہ لوگوں نے روزہ قضا کیا یا نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1959]
حدیث حاشیہ: اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے کہ ایسی صورت میں قضا لازم ہوگی اور کفارہ نہ ہوگا اور اس کے سوا یہ بھی ضروری ہے کہ جب تک غروب نہ ہو امساک کرے یعنی کچھ کھائے پیے نہیں۔ قسطلانی نے بعض حنابلہ سے یہ نقل کیا کہ اگر کوئی شخص یہ سمجھ کر کہ رات ہو گئی افطار کرلے پھر معلوم ہوا کہ دن تھا تو اس پر قضا نہیں ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں۔ میں کہتا ہوں حضرت عمر ؓ سے یہ منقول ہے کہ ایسی صورت میں قضا بھی نہیں ہے، اور مجاہد اور حسن سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔ حافظ نے کہا کہ ایک روایت امام احمد ؒ سے بھی ایسی ہی ہے اور ابن خزیمہ نے اسی کو اختیار کیا ہے اور معمر کی تعلیق کو عبد بن حمید نے وصل کیا۔ یہ روایت پہلی روایت کے خلاف ہے اور شاید پہلے ہشام کو اس میں شک رہا ہو پھر یقین ہو گیا ہو کہ انہوں نے قضا کی۔ اور ابواسامہ نے ان کو قضا کا یقین ہوجانے کے بعد روایت کی ہو، اس صورت میں تعارض نہ رہے گا۔ ابن خزیمہ نے کہا ہشام نے جو قضا کرنا بیان کیا اس کی سند ذکر نہیں کی، اس لیے میرے نزدیک قضا نہ ہونے کی ترجیح ہے اور ابن ابی شیبہ نے حضرت عمر ؓ سے نقل کیا کہ ہم قضا نہیں کرنے کے نہ ہم کو گناہ ہوا اور عبدالرزاق اور سعید بن منصور نے ان سے یہ نقل کیا ہے کہ قضا کرنا چاہئے۔ حافظ نے کہا کہ حاصل کلام یہ ہوا کہ یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ (وحیدی) ظاہر حدیث کا مفہوم یہی ہے کہ قضا لازم ہے واللہ أعلم
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1959
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1959
1959. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں ایک دن مطلع ابر آلود تھا۔ ہم نے روزہ افطار کرلیا۔ پھر اس کے بعد سورج نکل آیا۔ ہشام سے دریافت کیا گیا: پھر لوگوں کو قضا کا حکم دیا گیا ہوگا؟انھوں نے کہا: اس کے بغیر اور کیا چارہ تھا؟حضرت معمر کہتے ہیں کہ میں نے ہشام کو یہ کہتے ہوئے سنا مجھے معلوم نہیں کہ لوگوں نے روزہ قضا کیا یا نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1959]
حدیث حاشیہ: : (1) اگر روزہ افطار کرنے کے بعد سورج نکل آئے تو اس روزے کے متعلق کیا حکم ہے؟ اس میں متقدمین کا اختلاف ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس اختلاف کے پیش نظر کوئی فیصلہ نہیں دیا، بلکہ روایت کے بعد حضرت ہشام کے دو مختلف جواب ذکر کیے ہیں۔ ہمارے نزدیک ایسے روزے کے متعلق حکم یہ ہے کہ جب تک سورج غروب نہ ہو کوئی چیز استعمال نہ کی جائے اور اس کے بعد میں قضا دی جائے، البتہ اس کے ذمے کوئی کفارہ وغیرہ نہیں ہے۔ حضرت عمر ؓ سے اس کے متعلق دو مختلف روایات ہیں: حضرت خالد بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے بادلوں کے دن رمضان المبارک میں روزہ افطار کیا، بعد میں سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا: جس نے روزہ افطار کیا ہے وہ بعد میں قضا دے۔ زید بن وہب بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ ہمیں قضا کے طور پر روزہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي: 217/4) امام بیہقی ؒ نے مختلف روایات کے پیش نظر زید بن وہب کی روایت کو غلط قرار دیا ہے کیونکہ انہوں نے اکثریت کی مخالفت کی ہے، پھر انہوں نے حضرت صہیب کی روایت کا حوالہ دیا ہے کہ انہوں نے بعد میں قضا دینے کا حکم دیا تھا۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي: 218/4)(2) حافظ ابن حجر ؒ نے قضا دینے کی تائید کرتے ہوئے فرمایا ہے: اگر مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے اور لوگ روزہ نہ رکھیں، بعد میں پتہ چلا کہ چاند نظر آ گیا تھا لیکن لوگوں نے روزہ نہیں رکھا تو انہیں بعد میں اس کی قضا دینی ہو گی، اسی طرح روزہ افطار کرنے کے بعد سورج نظر آنے کی صورت میں بھی قضا دینا ضروری ہے۔ (فتح الباري: 255/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1959