ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اکٹھا ہوئیں اور ان میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہی، اتنے میں فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں، ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال کی طرح تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری بیٹی! خوش آمدید“ پھر انہیں اپنے بائیں طرف بٹھایا، اور چپکے سے کوئی بات کہی تو وہ رونے لگیں، پھر چپکے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بات کہی تو وہ ہنسنے لگیں، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے ان سے پوچھا کہ تم کیوں روئیں؟ تو انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو فاش نہیں کرنا چاہتی، میں نے کہا: آج جیسی خوشی جو غم سے قریب تر ہو میں نے کبھی نہیں دیکھی، جب فاطمہ روئیں تو میں نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی خاص بات تم سے فرمائی ہے، جو ہم سے نہیں کہی کہ تم رو رہی ہو، اور میں نے پوچھا: آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ انہوں نے یہی جواب دیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کرنے والی نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد میں نے ان سے پھر پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ جبرائیل مجھ سے ہر سال ایک بار قرآن کا دور کراتے تھے اب کی سال دو بار دور کرایا، تو میں سمجھتا ہوں کہ میری موت کا وقت قریب آ گیا ہے، اور تم میرے رشتہ داروں میں سب سے پہلے مجھ سے ملو گی، اور میں تمہارے لیے کیا ہی اچھا پیش رو ہوں“ یہ سن کر میں روئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستہ سے مجھ سے فرمایا: ”کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تم مومنوں کی عورتوں کی یا اس امت کی عورتوں کی سردار ہو گی، یہ سن کر میں ہنسی ۱؎“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1621]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1621
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کے مرض وفات کے دوران میں پیش آیا جب تمام امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھیں۔ مولانا صفی الرحمٰن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ نے الرحیق المختوم میں اسے حیات مبارکہ کے آخری دن کا واقعہ قرا ردیا ہے۔ اور فرمایا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ آخری دن نہیں بلکہ آخری ہفتے میں کسی دن پیش آیا تھا۔ واللہ أعلم، دیکھئے: (الرحیق المختوم اردو طبع مکتبہ سلفیہ ص: 628) اس حدیث میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شرف اور فضیلت کا اظہار ہے جنھیں رسول اللہ ﷺ نے خاص راز عطا فرمایا۔
(3) راز کے طور پر بتائی ہوئی بات ظاہر کرنا مناسب نہیں کیونکہ راز ایک امانت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور امانت میں خیانت کرنا حرام ہے۔
(4) رسول اللہ ﷺ کا حضرت فاطمہ کو مستقبل کی خبر دینا اور واقعات کا اسی طرح پیش آنا آپ ﷺ کی نبوت ورسالت کی دلیل ہے۔ رسول اللہﷺ نے جس قدر پیش گویئاں فرمائی ہیں۔ وہ سب کی سب اسی طرح بعینہ پوری ہویئں ہیں۔ جس طرح فرمائی گئی تھیں۔ جن پیش گویئوں کے ابھی پورا ہونے کاوقت نہیں آیا۔ ان کے بارے میں بھی ہمارا ایمان ہے کہ وہ ضرور پوری ہوں گی۔
(5) حفاظ کرام کا آپس میں دور کرنا اور بالخصوص رمضان المبارک میں اس کا اہتمام کرنا سنت نبوی ﷺ ہے۔
(6) عمر کے آخری حصے میں نیکی کے کاموں کا اہتما م زیاہ ہونا چاہیے۔
(7) دوست احباب اور اقارب کے لئے اگر کسی خوش کن خبر کا علم ہوتو انھیں خوش خبری دینی چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1621
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3872
´فاطمہ رضی الله عنہا کی فضیلت کا بیان` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اٹھنے بیٹھنے کے طور و طریق اور عادت و خصلت میں فاطمہ ۱؎ رضی الله عنہ سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا، وہ کہتی ہیں: جب وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آپ اٹھ کر انہیں بوسہ لیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے، اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آتے تو وہ اٹھ کر آپ کو بوسہ لیتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں چنانچہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو فاطمہ آئیں اور آپ پر جھکیں اور آپ کو بوسہ لیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور رونے لگیں پھر آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3872]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی منقبت کئی طرح سے ثابت ہوتی ہے۔
1۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ سے اخلاق وعادات میں بہت زیادہ مشابہت رکھتی تھیں۔
2۔ فاطمہ آپﷺ کو اپنے گھر والوں میں سب سے زیادہ پیاری تھیں۔
3۔ آخرت میں آپﷺ سے شرف رفاقت سب سے پہلے فاطمہ کو حاصل ہوئی (رضی اللہ عنہا)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3872
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6313
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،نبی اکرم کی تمام بیویاں آپ کے پاس تھیں،ان میں سے کوئی پیچھے نہیں رہ گئی تھی تواتنے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چلتی ہو ئی آئیں ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال سے ذرہ برابر مختلف نہ تھی۔جب آپ نے انھیں دیکھا تو ان کو خوش آمدید کہا اور فر یا:"میری بیٹی کو خوش آمدید!" پھر انہیں اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھا یا،پھر رازی داری سے ان کے ساتھ بات کی تو وہ شدت سے رونے لگیں۔جب آپ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6313]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سرگوشی میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنی موت کی غم انگیز خبر دی تو وہ بے قرار ہو کر رو پڑی، پھر آپ نے دوبارہ سرگوشی میں یہ غم انگیز خبر دی کہ جلد ہی میرے بعد تم فوت ہو جاؤ گی اور مجھے آ ملو گی تو موت کی خبر پر آپ سے ملاقات کی خبر غالب آ گئی تو وہ ہنس پڑیں، لیکن اس کے مقابلہ میں حضرت مسروق کی ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ نے پہلی دفعہ سرگوشی میں اپنی موت کی خبر دی اور فرمایا، تم اللہ سے ڈرنا اور صبر کرنا، کیونکہ میں تمہارا بہترین پیش رو ہوں، جو تمہارے استقبال کے لیے آگے جا رہا ہے تو وہ آپ کی موت کے صدمہ کی بنا پر رو پڑیں، پھر دوبارہ سرگوشی کی تو انہیں امت کی عورتوں کی سرداری کی خوش خبری سنائی اور اس پر راضی ہونے کے لیے کہا تو ہنس پڑیں اور دوسری روایت میں یہ ہے کہ پہلی دفعہ اپنی موت کی خبر کے ساتھ حضرت فاطمہ کی موت کی خبر بھی دی، اپنی موت کی خبر ہنسی اور گریہ دونوں کا سبب بن سکتی ہے، موت کے اعتبار سے گریہ اور آپ کی ملاقات کا سبب ہونے کی بنا پر مسرت و شادمانی، اس لیے جب اپنی موت کے ساتھ ہی، ان کی موت کی خبر دے کر گریہ اور ہنسی دونوں کے حالات پیدا کر دئیے گئے، گریہ پر ملاقات کی فرحت و مسرت غالب آ گئی تو پھر بیقراری تو دور ہو گئی، دوبارہ سرگوشی کی کیا ضرورت رہی، اس لیے صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ دوسری سرگوشی میں حضرت فاطمہ کی موت کی خبر کے ساتھ انہیں سرداری کی خوش خبری بھی سنائی گئی تو انہیں مسرت ہوئی اور وہ ہنسنے لگیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6313
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3626
3626. انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے مجھ سے پوشیدہ بات کرتے ہوئے بتایا کہ میری وفات اسی بیماری میں ہو جائے گی جس پر میں روپڑی۔ پھر آپ نے مجھ سے آہستہ گفتگو فرمائی اور مجھے بتایا کہ تم میرے خاندان کی پہلی خاتون ہو جو میری وفات کے بعد میرے پاس آؤ گی، اس وجہ سے میں ہنس پڑی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3626]
حدیث حاشیہ: جیسا آپ نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا۔ وفات نبوی کے چھ ماہ بعد حضرت فاطمہ ؓ کا وصال ہوگیا اس حدیث سے حضرت فاطمہ زہراءکی بڑی فضیلت نکلتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3626
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3716
3716. انھوں نے (حضرت سیدہ فاطمہ ؓنے) بتایا: مجھ سے نبی کریم ﷺ نے آہستہ بات کی تھی کہ آپ اس بیماری میں وفات پاجائیں گے تو میں اس پر رونے لگی۔ پھر آپ ﷺ نے مجھ سے دوبارہ آہستہ گفتگو فرمائی کہ آپ کے اہل بیت میں سے میں سب سے پہلے آپ سے ملاقات کروں گی تو میں اس پر ہنس پڑی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3716]
حدیث حاشیہ: جیسا آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا ویساہی ہوا کہ آپ کی وفات کے تقریباً چھ ماہ بعد حضرت فاطمۃ الزہراء ؓ کا انتقال ہوگیا، آنحضرت ﷺ نے یہ خبروحی الٰہی کے ذریعہ سے دی تھی کیونکہ آپ عالم الغیب نہیں تھے، ہاں اللہ پاک کی طرف سے جو معلوم ہوجاتا وہ فرماتے اور پھر وہ حرف بہ حرف پورا ہوجاتا۔ عالم الغیب اس کو کہتے ہیں جو خود بخود بغیر کسی کے بتلائے غیب کی خبریں پیش کرسکے، یہ علم غیب صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور کوئی نبی وولی غیب دان نہیں ہیں۔ ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کی زبانی اعلان کرادیا ہے کہ کہہ دو میں غیب جاننے والا نہیں ہوں۔ اگر آپ غیب داں ہوتے تو جنگ احد کا عظیم حادثہ پیش نہ آتا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3716
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3626
3626. انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے مجھ سے پوشیدہ بات کرتے ہوئے بتایا کہ میری وفات اسی بیماری میں ہو جائے گی جس پر میں روپڑی۔ پھر آپ نے مجھ سے آہستہ گفتگو فرمائی اور مجھے بتایا کہ تم میرے خاندان کی پہلی خاتون ہو جو میری وفات کے بعد میرے پاس آؤ گی، اس وجہ سے میں ہنس پڑی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3626]
حدیث حاشیہ: 1۔ یہ دو حدیثیں ہیں پہلی حدیث کو حضرت عائشہ ؓ سے بیان کرنے والے حضرت مسروق ہیں۔ جبکہ دوسری حدیث کو ان سے بیان کرنے والے حضرت عروہ ؒ ہیں لیکن دونوں روایات میں کچھ اختلاف ہے پہلی روایت میں سیدہ کے رونے کا سبب آپ کا رسول اللھ ﷺ کو پہلے پہلے ملنے کو قرار دیا گیا جبکہ دوسری روایت میں اسے سیدہ کے ہنسنے کا باعث قراردیا گیا ہے۔ دراصل رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ کو خفیہ طور پر تین باتیں بتائیں پہلی بات تو آپ کے انتقال کی تھی یہ تو ان کے رونے کا سبب تھا۔ دوسری بات جنت میں ان کے سردار ہونے کی تھی جس کے سبب انھیں سرور لاحق ہوا اور آپ ہنس پڑیں۔ تیسری بات یہ تھی کہ اہل خانہ میں سب سے پہلے سیدہ وفات پائیں گی اور سب سے پہلے مجھ سے ان کی ملاقات ہوگی۔ یہ خبر ایک وجہ سے خوشی اور سرور کا باعث تھی جیسا کہ عروہ کی روایت میں ہے اور ایک وجہ سے غم کی خبر تھی جس وجہ سے آپ رونے لگیں۔ جیسا کہ مسروق کی روایت میں ہے اس طرح سے دونوں روایات کا اختلاف ختم ہو جاتا ہے علامہ سندھی کہتے ہیں شایدرسول اللہ ﷺ نے سیدہ فاطمہ ؓ کو دو مرتبہ بشارت سنائی ہو۔ ایک مرتبہ وفات کی خبر کے ساتھ ملا دیا۔ جس سے ان پر رونا غالب آگیا اور دوسری مرتبہ بشارت سیادت کے ساتھ ملا دیا تو دونوں بشارتیں ہنسنے کا سبب بن گئیں اس طرح بھی دونوں روایات جمع ہو سکتی ہیں۔ (حاشیہ سندھی: 284/2) 2۔ الغرض ان دونوں روایات میں دو معجزے بیان ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت فاطمہ ؓ آپ کے بعد زندہ رہیں گی۔ چنانچہ وہ چھ ماہ بعد تک زندہ رہیں اور دوسرا معجزہ خاندان میں سے سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کو ملنے والی ہیں۔ دونوں باتیں حرف بہ حرف پوری ہوئیں جو آپ کی نبوت کی زبردست دلیل ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3626
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3716
3716. انھوں نے (حضرت سیدہ فاطمہ ؓنے) بتایا: مجھ سے نبی کریم ﷺ نے آہستہ بات کی تھی کہ آپ اس بیماری میں وفات پاجائیں گے تو میں اس پر رونے لگی۔ پھر آپ ﷺ نے مجھ سے دوبارہ آہستہ گفتگو فرمائی کہ آپ کے اہل بیت میں سے میں سب سے پہلے آپ سے ملاقات کروں گی تو میں اس پر ہنس پڑی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3716]
حدیث حاشیہ: ان احادیث میں امام بخاری ؒ نے عنوان کے دوسرے جز کو ثابت کیا ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں سے محبت کرناایمان کا تقاضا ہے۔ ان قرابت داروں میں سرفہرست حضرت سیدہ فاطمہ ؓ ہیں۔ انھیں بلاوجہ ناراض کرنا گویا رسول اللہ ﷺ کو ناراض کرناہے،اس لیے انھیں خوش رکھنے کے لیے انتہائی کوشش کی جائے،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی کے طور پر فرمایا: میرے اہل بیت میں سب سے پہلے سیدہ فاطمہ ؓ مجھ سے ملاقات کریں گی،چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے چھ ماہ بعد سیدہ فاطمہ ؓوفات پاگئیں۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3716
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4434
4434. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ کو اپنے مرضِ وفات میں بلایا اور ان کے کان میں کوئی بات کی تو وہ رونے لگیں۔ آپ نے انہیں پھر دوبارہ بلایا اور کچھ آہستہ سے فرمایا تو وہ ہنسنے لگیں۔ ہم نے (سیدہ فاطمہ ؓ سے) اس کی بابت دریافت کیا تو انہوں نے کہا: پہلے نبی ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ اس مرض میں آپ ﷺ کی روح قبض ہو گی تو یہ سن کر میں رونے لگی۔ پھر دوسری دفعہ یہ فرمایا: (اے فاطمہ!) میرے بعد اہل بیت میں سے سب سے پہلے تیری روح قبض ہو گی، یعنی تو مجھ سے ملے گی۔ یہ سن کر میں ہنسنے لگی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4434]
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ جب آئیں تو ان کی چال ڈھال رسول اللہ ﷺ جیسی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے لخت جگر! خوش آمدید۔ “ پھر انھیں دائیں یا بائیں جانب بٹھایا پھر آپ نے ان سے آہستہ سے کوئی بات کی تو وہ روپڑیں۔ میں نے پوچھا: تم کیوں روتی ہو؟ پھر آہستہ سے آپ نے بات کی تو آپ ہنس پڑیں۔ میں نے کہا کہ غمی اور خوشی کے ملے جلے جذبات میں نے آج ہی دیکھے ہیں میں نے اس کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کا رازافشاں نہیں کرنا چاہتی۔ جب رسول اللہ ﷺ فوت ہوئے تومیں نے پھر پوچھا تو انھوں نے کہا: پہلی دفعہ رسول اللہ ﷺ نے آہستہ سے یہ بات کہی تھی۔ ”جبرئیل ؑ سال میں ایک مرتبہ قرآن کا دور کرتے تھےجبکہ اس سال انھوں نے دو مرتبہ دور کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری موت قریب ہے اور تم میرے اہل خانہ میں سے سب سے پہلے مجھ سے ملاقات کرو گی۔ '' تو میں رونے لگی۔ پھر آپ نے فرمایا: ”تم جنت میں خواتین کی سردار ہوگی، کیا تجھے یہ بات پسند نہیں ہے میں یہ بشارت سن کر ہنس پڑی۔ “(صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3623۔ 3624) 2۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت فاطمہ ؓ کے ہنسنے کے دو اسباب تھے ایک پہلی روایت میں اور دوسرا اس روایت میں مذکورہ ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4434