ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا، تو لوگوں نے بغلی اور صندوقی قبر کے سلسلے میں اختلاف کیا، یہاں تک کہ اس سلسلے میں باتیں بڑھیں، اور لوگوں کی آوازیں بلند ہوئیں، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زندگی میں یا موت کے بعد شور نہ کرو، یا ایسا ہی کچھ کہا، بالآخر لوگوں نے بغلی اور صندوقی قبر بنانے والے دونوں کو بلا بھیجا، تو بغلی قبر بنانے والا پہلے آ گیا، اس نے بغلی قبر بنائی، پھر اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کیا گیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1558]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16246، ومصباح الزجاجة: 556) (حسن)» (متابعات وشواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں عبید بن طفیل مجہول اور عبد الرحمن بن أبی ملیکہ ضعیف راوی ہیں) (تراجع الألبانی: رقم: 590)
لما مات رسول الله اختلفوا في اللحد والشق حتى تكلموا في ذلك وارتفعت أصواتهم فقال عمر لا تصخبوا عند رسول الله حيا ولا ميتا فأرسلوا إلى الشقاق واللاحد جميعا فجاء اللاحد فلحد لرسول الله ثم دفن صلى الله
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1558
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کےبحث ومباحثہ سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ ان کی نظر میں دونوں طریقے درست تھے۔ قابل غور مسئلہ صرف یہ تھا کہ نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک کےلئے کون سا طریقہ اختیار کیا جائے۔
(2) جب کسی معاملے میں دونوں پہلوں قریب قریب برابر ہوں۔ تو ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ جس پر فریقین رضا مند ہوجایئں۔ اور اختلاف ختم ہوجائے۔
(3) رسول اللہ ﷺ کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے پاس زور سے نہ بولا جائے۔ یہ احترام وفات کے بعد بھی قائم ہے۔ لہٰذا قبرمبارک کے قریب بلند آواز سے بات چیت یا بحث وتکرار سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(4) ۔ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبریں مسجد نبوی ﷺسے باہر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی رہائش گاہ میں بنایئں گئیں تھیں۔ بعد میں جب مسجد نبویﷺ کی توسیع ہوئی تو امہات المومنین کے حجرے بھی مسجد میں شامل ہوگئے۔ اب مسجد کے احترام کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہاں بلند آوازسے بات چیت نہ کی جائے۔ لہٰذا قبر نبوی (ﷺ) کی زیارت کرنے والوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہاں بلند آواز سے صلاۃ وسلام نہ پڑھیں بلکہ زیارت قبور کی مسنون دعایئں ہلکی آواز سے پڑھیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1558