الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
88. بَابُ : مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنْ تَخَطِّي النَّاسَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
88. باب: دوران جمعہ لوگوں کی گردنیں پھلانگنے کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 1115
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِيُّ ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ : أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ، فَجَعَلَ يَتَخَطَّى النَّاسَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اجْلِسْ فَقَدْ آذَيْتَ، وَآنَيْتَ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوا، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، وہ لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے جانے لگا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹھ جاؤ، تم نے لوگوں کو تکلیف پہنچائی، اور آنے میں تاخیر بھی کی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1115]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2226، ومصباح الزجاجة: 396) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: بعض لوگ جمعہ کے دن دیر سے آتے ہیں اور لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے جاتے ہیں، یہ ممنوع بلکہ حرام ہے، علامہ ابن القیم نے اس کو کبیرہ گناہوں میں لکھا ہے، اس لئے آدمی کو چاہئے کہ جہاں جگہ پائے وہیں بیٹھ جائے، جب دیر میں آیا تو پیچھے ہی بیٹھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   سنن ابن ماجهاجلس فقد آذيت وآنيت

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1115 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1115  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جمعے کے لئے جلدی جانا چاہیے تاکہ امام سے قریب تر مناسب جگہ مل سکے۔

(2)
اگر دیر ہوجائےتو پیچھے ہی جہاں جگہ ملے بیٹھ جائے۔

(3)
آگے جانے کی کوشش میں دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث بننا مناسب نہیں۔

(4)
اگرکوئی نمازی نا مناسب حرکت کرے۔
توامام اسے خطبے کے دوران میں منع کرسکتا ہے تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی معلوم ہوجائے اووہ اس کام سے اجتناب کریں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1115