الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
85. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْخُطْبَةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
85. باب: جمعہ کے خطبہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1109
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ مُهَاجِرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ:" إِذَا صَعِدَ الْمِنْبَرَ سَلَّمَ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب منبر پر چڑھتے تو لوگوں کو سلام کرتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1109]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3075، ومصباح الزجاجة: 395) (حسن)» ‏‏‏‏ (شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے ورنہ اس کی سند میں عبد اللہ بن لہیعہ ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: الاجوبہ النافعہ: 58)

وضاحت: ۱؎: یعنی حاضرین کو سلام کرتے، اور امام شافعی نے اسی حدیث کو دلیل بنا کر یہ کہا ہے کہ امام جب منبر پر جائے تو کل حاضرین کو مخاطب کر کے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ابن لهيعة عنعن
وللحديث شواهد ضعيفة
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 417

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1109 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، ابن ماجہ 1109  
خطیب کا منبر پر بیٹھ کر لوگوں کو السلام علیکم کہنا
کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ خطیب منبر پر بیٹھ کر لوگوں کو السلام علیکم کہے۔ اس سلسلے میں سنن ابن ماجہ [1109]
وغیرہ والی روایت عبداللہ بن لہیعہ کے ضعف (بوجۂ اختلاط) اور تدلیس (عن) کی وجہ سے ضعیف ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ اور مصنف عبدالرزاق وغیرہما میں اس کے ضعیف شواہد بھی ہیں، جن کے ساتھ مل کر یہ روایت ضعیف ہی ہے۔
اگر امام مسجد میں پہلے سے موجود ہو تو بغیر سلام کے منبر پر چڑھ جائے اور اذان کے بعد خطبہ شروع کر دے اور اگر باہر سے مسجد میں آئے تو مسجد میں داخل ہوتے وقت سلام کہہ دے۔
عمرو بن مہاجر سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز (رحمہ اللہ) جب منبر پر چڑھ جاتے تو لوگوں کو سلام کہتے اور لوگ اُن کا جواب دیتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/ 114ح 5197 وسنده حسن]
خیرالقرون کے اس عمل سے معلوم ہوا کہ خطبہ سے پہلے خطیب کا لوگوں کو سلام کہنا جائز ہے، لہٰذا اسے بدعت کہنا غلط ہے اور اگر اس حالت میں سلام نہ کہے تو بھی بالکل صحیح ہے۔
. . . اصل مضمون کے لئے دیکھیں . . . ماہنامہ الحدیث شمارہ 75 صفحہ 17
اور علمی مقالات جلد 3 صفحہ 157
فتاوی علمیہ جلد 3 متفرق مسائل صفحہ 276
   فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، حدیث/صفحہ نمبر: 276   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1109  
اردو حاشہ:
فائده:
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
جبکہ اس مسئلے کی تایئد وتوثیق میں دیگر روایات بھی مروی ہیں۔
جو کہ سنداً کچھ کمزور ہیں۔
لیکن کم از کم سلام کی مشروعیت ومسنونیت پر دلالت کرتی ہیں۔
علاوہ ازیں مذکورہ روایت کی تحقیق کرتے ہوئے زہیر الشادیش او شعیب الأرناؤط نے شرح السنۃ کے حاشہ میں اسکے دیگر شواہد کا ذکر کیا ہے۔
نیز انھوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بابت لکھا ہے۔
کہ نبی کریمﷺ کے بعد یہ دونوں حضرات اس مسئلہ پر عمل کیا کرتے تھے۔
نیز حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی عمل نقل کیا ہے۔
دیکھئے:(شرح السنة: 243، 242/4)
شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ابن ماجہ کی مذکورہ روایت کو حسن قراردیا ہے۔
دیکھئے: (الأجوبة النافعة، ص: 58)
 الحاصل مذکورہ مسئلہ کی بابت تمام روایات کو جمع کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے۔
کہ خطیب کا جمعہ سے قبل سلام کہنا مستحب ومندوب ہے نیز اس مسئلہ کی بابت تمام روایات کوجمع کرنے کے بعد مذکورہ بالا روایت کوصحیح تسلیم نہ بھی کیا جائے۔
تو کم از کم یہ روایت حسن لغیرہ بن جاتی ہے جوکہ محدثین کے نزدیک قابل عمل اور قابل حجت ہوتی ہے۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1109