ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب انسان آیت سجدہ تلاوت کرتا اور سجدہ کرتا ہے، تو شیطان روتا ہوا الگ ہو جاتا ہے، اور کہتا ہے: ہائے خرابی! ابن آدم کو سجدہ کا حکم ہوا، اس نے سجدہ کیا، اب اس کے لیے جنت ہے، اور مجھ کو سجدہ کا حکم ہوا، میں نے انکار کیا، میرے لیے جہنم ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1052]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الإیمان 35 (81)، (تحفة الأشراف: 12524)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/443) (صحیح)»
إذا قرأ ابن آدم السجدة فسجد اعتزل الشيطان يبكي يقول يا ويله وفي رواية أبي كريب يا ويلي أمر ابن آدم بالسجود فسجد فله الجنة وأمرت بالسجود فأبيت فلي النار
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1052
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) سجدہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا ایک عظیم عمل ہے۔ جس کا بہت زیادہ ثواب ہے۔ خواہ وہ فرض سجدہ ہوجیسے فرض اور نفل نمازوں کے سجدے یا نفل سجدہ ہوجیسے سجدہ شکر اورسجدہ تلاوت، رسول اللہﷺ نے حضرات ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا۔ اللہ کوسجدے زیادہ کیا کر کیونکہ تو اللہ کےلئے جو سجدہ بھی کرے گا۔ اس کے بدلے اللہ تعالیٰ تیرادرجہ بلند کردے گا اور تیرا گناہ معاف کردے گا۔ (صحیح مسلم، الصلاۃ، باب فضل السجود والحث علیه، حدیث: 488)
(2) سابقہ شریعتوں میں احترام کے طور پر کسی کو سجدہ کرنا جائز تھا شریعت محمدیہ میں سجدہ تعظیمی حرام ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں کا سجدہ کرنا یا حضرت یوسف کو ان کے والدین اور بھائیوں کا سجدہ کرنا ہمارے لئے جواز کی دلیل نہیں بن سکتا۔ جسطرح شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کی شراب نوشی سے اب شراب کے جواز کا ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا۔
(3) اس حدیث سے سجدہ تلاوت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے تاہم دوسرے دلائل سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں البتہ مستحب اور ثواب کا باعث یقیناً ہے۔ دیکھئے: (جامع ترمذي، الجمعة، باب ماجاء من لم یسجد فی، حدیث: 576) محض سستی کی وجہ سے ثواب حاصل کرنے کا یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1052
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 244
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب ابنِ آدم (انسان) سجدہ کی آیت تلاوت کرکے سجدہ کرتا ہے، شیطان روتے ہوئے وہاں سے ہٹ جاتا ہے اور کہتا ہے ہائے اس کی ہلاکت۔“ اور ابو کریب کی روایت میں ہے: ہائے میری تباہی! ابنِ آدم کو سجدہ کا حکم ملا، تو وہ سجدہ کر کے جنّت کا مستحق ٹھہرا اور مجھے سجدہ کا حکم ملا، تو میں انکار کر کے دوزخ کا حق دار ٹھہرا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:244]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : وَيْلٌ: شر کا شکار ہونا، تباہی و بربادی۔ فوائد ومسائل: سجدے کی آیت نماز یا نماز کے علاوہ پڑھنے پر جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اس وقت شیطان یہ کہتا ہے اور حدیث اور باب کے درمیان مطابقت ہے۔ اس طرح شیطان ایک سجدے کے انکار سے دوزخ کا حقدار ٹھہرا اور دوزخ کا حقدار کافرہی ہے۔