عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھا کرتی تھی، جو بہت زیادہ خوبصورت تھی، کچھ لوگ پہلی صف میں کھڑے ہوتے تاکہ اسے نہ دیکھ سکیں، اور کچھ لوگ پیچھے رہتے یہاں تک کہ بالکل آخری صف میں کھڑے ہوتے اور جب رکوع میں جاتے تو اس طرح بغل کے نیچے سے اس عورت کو دیکھتے، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے سلسلے میں آیت کریمہ: «ولقد علمنا المستقدمين منكم ولقد علمنا المستأخرين»”ہم نے جان لیا آگے بڑھنے والوں کو، اور پیچھے رہنے والوں کو“(سورۃ الحجر: ۲۴) نازل فرمائی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1046]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/التفسیر سورة 15/1 (3122)، سنن النسائی/الإمامة 62 (871)، (تحفة الأشراف: 5364)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/305) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (3122) نسائي (871) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 414
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1046
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) یہ روایت ضعیف ہے۔ اسی لئے یہ سارا واقعہ ہی بے بنیاد ہے۔
(2) ہر عمل میں نیت کا صحیح ہونا بہت ضروری ہے۔
(3) عورتوں کا فرض نماز باجماعت ادا کرنے کےلئے مسجد میں آنا جائز ہے۔
(3) اس آیت کو ماقبل اور ما بعد سے ملا کر پڑھا جائے تو آیات کا مفہوم یوں بنتا ہے۔ ”اور بلاشبہ ہم ہی موت اور زندگی دیتے ہیں۔ اور بے شک ہم ہی (بالآخر ہرچیز کے اور ہر شخص کے) وارث ہیں۔ اور یقیناً تم سے آگے بڑھنے والے بھی ہمارے علم میں ہیں۔ اور پیچھے ہٹنے والے بھیں آپ کارب ان (سب) کوجمع کرے گا۔ وہ یقیناً بڑی حکمتوں والا اور بڑے علم والا ہے۔ (الحجر: 23 تا 25) اس سیاق کی روشنی میں آگے بڑھنے والوں اور پیچھے ہٹنے (یا پیچھے رہ جانے) والوں کا مطلب پہلے فوت ہوجانے والے اور ان کے پسماندگان بھی ہوسکتا ہے۔ اور نیک کاموں میں سبقت لے جانے والے اور کوتاہی اور سستی سے کام لینے والے بھی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1046