عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں آپ کو سب سے زیادہ کون محبوب تھا؟ کہا: ابوبکر، میں نے پوچھا: پھر کون؟ کہا: عمر، میں نے پوچھا: پھر کون؟ کہا: ابوعبیدہ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 102]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/المنا قب 14، (3657)، (تحفة الأشراف: 16212)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/218) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: خلاصہ یہ ہے کہ محبت کے مختلف وجوہ و اسباب ہوتے ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت بیٹی ہونے کے اعتبار سے اور ان کے زہد و عبادت کی وجہ سے تھی، اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے محبت زوجیت، دینی بصیرت، اور فہم و فراست کے سبب تھی، اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت اسلام میں سبقت، دین کی بلندی، علم کی زیادتی، شریعت کی حفاظت اور اسلام کی تائید کے سبب تھی، شیخین کے یہ کمالات و مناقب کسی پر پوشیدہ نہیں، اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے محبت اس لئے تھی کہ ان کے ہاتھ پر متعدد فتوحات اسلام ہوئیں۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث102
اردو حاشہ: (1) اس حدیث سے ان تین عظیم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔ چونکہ ان تینوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی محبت تھی، اس لیے وہ اللہ کے بھی بہت پیارے تھے۔
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ممتاز صحابہ کرام سے زیادہ محبت کا سبب ان کے امتیازی اوصاف ہیں، مثلا: حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے اس وجہ سے محبت تھی کہ وہ اس دور میں اسلام لائے جب حق قبول کرنا طرح طرح کے مصائب و آفات کو دعوت دینے کے مترادف تھا اور پھر دین کی اشاعت و قوت کا سبب بنے۔ اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ سے اس لیے محبت تھی کہ جہاد فی سبیل اللہ میں ان کا ایک خاص مقام تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی ان کی سربراہی میں مسلمان افواج نے بہت زیادہ فتوحات حاصل کیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 102