سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ فاطمہ بنت قیس اللہ سے ڈرتی نہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا اشارہ ان کے اس قول کی طرف تھا (کہ مطلقہ بائنہ کو) نفقہ و سکنی دینا ضروری نہیں (جو کہتی ہے کہ طلاق بائن جس عورت پر پڑے اسے مسکن اور خرچہ نہیں ملے گا)[اللؤلؤ والمرجان/كتاب الطلاق/حدیث: 946]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في:68 كتاب الطلاق: 41 باب قصة فاطمة بنت قيس»
وضاحت: مکمل قصہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں درج کیا ہے۔ ابو بکر بن جھم روایت کرتے ہیں کہ میں نے فاطمہ بن تقیس سے سنا وہ فرماتی ہیں، میری طرف میرے خاوند ابو عمرو بن حفص نے طلاق نامہ بھیجااور اس کے ساتھ پانچ صاع کھجوریں اور پانچ صاع جو بھی بھیجے۔ میں نے کہا کیا میرے لیے یہی نفقہ ہے اور میں تمھارے گھر میں عدت بھی نہیں گزار سکتی؟اس نے کہا نہیں۔فرماتی ہیں میں نے اپنے کپڑے لیے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کتنی طلاقیں ہوئی؟میں نے کہا تیسری طلاق ہے۔ فرمایا پھر اس نے سچ کہا ہے، تیرے لیے کوئی نفقہ اور خرچ نہیں اور تو اپنے چچا زاد بھائی ابن ام مکتوم کے پاس جا کر عدت گزارو کیونکہ وہ نابینا ہے اور جب تم کپڑے وغیرہ اتارو گی تو تمہیں تکلیف نہیں ہو گی۔ اور جب عدت ختم ہو تو مجھے خبر کرنا۔ فرماتی ہیں مجھے کئی لوگوں نے منگنی کے پیغام بھیجے جن میں معاویہ اور ابو جھم بھی شامل تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معاویہ کنگال آدمی ہے اس کے پاس کوئی مال نہیں۔ باقی ابو جھم عورت کو مارتا بہت زیادہ ہے تو ایسے کرو کہ اسامہ بن زید سے نکاح کر لو۔(مرتبؒ) راوي حدیث: سیّدنا فاطمہ رضی اللہ عنہ بنت قیس رضی اللہ عنہ ضحاک بن قیس کی بہن ہیں۔ مہاجرات میں سے ہیں۔ بڑی ذہین و فطین اور صالحہ عورت تھیں۔ پہلے ابو عمر و بن حفص کے نکاح میں تھیں۔ انہوں نے طلاق دے دی عدت کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورے سے اسامہ بن زید سے نکاح کر لیا۔ بہت سی احادیث روایت کی ہیں۔