رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کو کچھ عطیہ دیا اور سیّدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ وہاں موجود تھے (وہ کہتے ہیں کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک شخص کو کچھ نہ دیا حالانکہ وہ ان میں مجھے سب سے زیادہ پسند تھا میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے فلاں کو کچھ نہ دیا حالانکہ میں اسے مومن گمان کرتا ہوں آپ نے فرمایا کہ مومن یا مسلمان؟ میں تھوڑی دیر خاموش رہا پھر اس کے متعلق میرے خیالات نے مجھے دوبارہ بولنے پر مجبور کیا اور میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے فلاں کو کچھ نہ دیا حالانکہ اللہ کی قسم وہ میرے مشاہدے کے مطابق مومن ہے آپ نے فرمایا مومن یا مسلمان؟ میں تھوڑی دیر چپ رہ کر ایک بار پھر اپنی معلومات کی وجہ سے پہلی بات کو دہرانے لگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنا جواب دہرایا پھر آپ نے فرمایا کہ اے سعد باوجود یہ کہ ایک شخص مجھے زیادہ عزیز ہے (پھر بھی میں اسے نظر انداز کر کے) کسی اور دوسرے کو اس خوف کی وجہ سے یہ مال دے دیتا ہوں کہ (وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے اسلام سے پھر جائے) اور اللہ اسے آگ میں اوندھا ڈال دے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 91]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 2 كتاب الإيمان: 19 باب إذا لم يكن الإسلام على الحقيقة»
وضاحت: راوي حدیث: سیّدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو اسحاق ہے، بڑے بہادر صحابی تھے۔ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ امت محمدیہ میں پہلے انسان ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے راستے میں تیر پھینکا تھا۔ بدر میں شریک ہوئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا۔ یہی وہ جلیل القدر صحابی ہیں جنہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”سعد تیر پھینکتے رہو میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں“ اور فرمایا کہ یا اللہ سعد جب بھی دعا کرے قبول فرمانا۔ ۲۷۰ احادیث کے راوی ہیں۔ عشرہ مبشرہ میں سب سے آخر میں ۵۵ ہجری کو ستر سال کی عمر میں عتیق کے مقام پر وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔