1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الحج
کتاب: حج کے مسائل
428. باب تحريم مكة وصيدها وخلاها وشجرها ولقطتها إِلا لمنشد على الدوام
428. باب: مکہ کی حرمت اور مکہ میں شکار وغیرہ کی حرمت
حدیث نمبر: 859
859 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَوْمَ افْتَتَحَ مَكَّةَ: لاَ هِجْرَةَ [ص:78] وَلكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ، وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا، فَإِنَّ هذَا بَلَدٌ حَرَّمَ اللهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّموَاتِ وَالأَرْضَ، وَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ الْقِتَالُ فِيهِ َلأحَدٍ قَبْلِى، وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلاَّ سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، لاَ يُعْضَدُ شَوْكُهُ، وَلاَ يُنَفَّرُ صَيْدُهُ، وَلاَ يَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ إِلاَّ مَنْ عَرَّفَهَا، وَلاَ يُخْتَلَى خَلاَهَا قَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللهِ إِلاَّ الإِذْخِرَ فَإِنَّهُ لِقَيْنِهِمْ وَلِبُيُوتِهِمْ قَالَ: قَالَ: إِلاَّ الإِذْخِرَ
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا اب ہجرت فرض نہیں رہی لیکن (اچھی) نیت اور جہاد اب بھی باقی ہے اس لئے جب تمہیں جہاد کے لئے بلایا جائے تو تیار ہو جانا اس شہر(مکہ) کو اللہ تعالیٰ نے اسی دن حرمت عطا کی تھی جس دن اس نے آسمان اور زمین پیدا کئے اس لئے یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حرمت کی وجہ سے محترم ہے یہاں کسی کے لئے بھی مجھ سے پہلے لڑائی جائز نہیں تھی اور مجھے بھی صرف ایک دن گھڑی بھر کے لئے (فتح مکہ کے دن اجازت ملی تھی) اب ہمیشہ یہ شہر اللہ کی قائم کی ہوئی حرمت کی وجہ سے قیامت تک کے لئے حرمت والا ہے پس نہ اس کا کانٹا کاٹا جائے نہ اس کے شکار ہانکے جائیں اور اس شخص کے سوا جو اعلان کرنے کا ارادہ رکھتا ہو کوئی یہاں کی گری ہوئی چیز نہ اٹھائے اور نہ یہاں کی گھاس اکھاڑی جائے سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ اذخر (ایک گھاس) کی اجازت تو دیجئے کیونکہ یہ یہاں کے کاریگروں اور گھروں کے لئے ضروری ہے تو آپ نے فرمایا کہ اذخر کی اجازت ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 859]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 28 كتاب جزاء الصيد: 10 باب لا يحل القتال بمكة»

وضاحت: فتح مکہ کے بعد چونکہ مکہ دارالسلام بن چکا ہے اس لیے اب یہاں سے مدینہ کی طرف ہجرت کا وجوب ختم ہو گیا ہے لیکن کافروں سے جہاد اور بھلائی کے کاموں میں اچھی نیت باقی ہے جن سے ہم وہ فضائل حاصل کر سکتے ہیں جو ہجرت سے حاصل ہوتے ہیں۔امام ماوردی، امام نووی کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حرم کے خصائص میں سے ہے کہ حرم میں رہنے والوں سے جنگ اور قتال منع ہے۔ حتیٰ کہ اگر وہ اہل عدل پر بغاوت کرتے ہیں تو بھی فقہاء نے ان سے لڑنے کی حرمت کا فتوٰی دیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں مجبور کیا جائے گا کہ وہ اطاعت کی طرف لوٹ آئیں اور اہل عدل کے قوانین کی طرف رجوع کریں۔ جمہور علماء نے کہا ہے کہ جب بغاوت سے قتال کے بغیر انہیں لوٹانا ممکن نہ ہو تو پھر ان سے لڑنا جائز ہے کیونکہ باغیوں سے لڑائی کرنا حقوق اللہ میں سے ہے اور حقوق اللہ کا ضیاع جائز نہیں ہے۔ امام نووی نے بھی اس آخری بات کو ترجیح دی ہے۔(مرتبؒ)