عبداللہ رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ میرے والد (سیّدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ) صلح حدیبیہ کے موقعہ پر (دشمنوں کا پتہ لگانے) نکلے پھر ان کے ساتھیوں نے تو احرام باندھ لیا لیکن (خود انہوں نے ابھی) نہیں باندھا تھا (اصل میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی نے یہ اطلاع دی تھی کہ (مقام غیقہ میں) دشمن آپ کی تاک میں ہے اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ابوقتادہ اور چند صحابہ کو ان کی تلاش میں) روانہ کیا میرے والد (ابوقتاد رضی اللہ عنہ) اپنے ساتھیوں کے ساتھ تھے کہ یہ لوگ ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر ہنسنے لگے (میرے والد نے بیان کیا کہ) میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ ایک جنگلی گدھا سامنے ہے میں اس پر جھپٹا اور نیزے سے اسے ٹھنڈا کر دیا میں نے اپنے ساتھیوں کی مدد چاہی تھی لیکن انہوں نے انکار کر دیا تھا پھر ہم نے گوشت کھایا اب ہمیں یہ ڈر ہوا کہ کہیں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) دور نہ رہ جائیں چنانچہ میں نے آپ کو تلاش کرنا شروع کر دیا کبھی اپنے گھوڑے تیز کر دیتا اور کبھی آہستہ آخر رات گئے بنو غفار کے ایک شخص سے ملاقات ہو گئی میں نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ اس نے بتایا کہ جب میں آپ سے جدا ہوا تو آپ مقام تعھن میں تھے اور آپ کا ارادہ تھا کہ مقام سقیا میں پہنچ کر دوپہر کا آرام کریں گے (غرض میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا) اور میں نے عرض کی یا رسول اللہ آپ کے اصحاب آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت بھیجتے ہیں انہیں یہ ڈر ہے کہ کہیں وہ بہت پیچھے نہ رہ جائیں اس لئے آپ ٹھہر کر ان کا انتظار کریں پھر میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے ایک جنگلی گدھا شکار کیا تھا اور اس کا کچھ بچا ہوا گوشت اب بھی میرے پاس موجود ہے آپ نے لوگوں سے کھانے کے لئے فرمایا حالانکہ وہ سب محرم تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 744]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 28 كتاب جزاء الصيد: 2 باب إذا صاد الحلال فأهدى للمحرم الصيد أكله»