1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الصيام
کتاب: روزہ کے مسائل
357. باب النهى عن صوم الدهر لمن تضرر به، أو فوت به حقا أو لم يفطر العيدين والتشريق، وبيان تفضيل صوم يوم وإفطار يوم
357. باب: صوم دھر کی ممانعت اور صوم داؤدی کی فضیلت (جسے تکلیف ہو یا حقوق کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو یا جو عیدین اور ایام تشریق میں افطار نہ کرے اس کے لیے صوم دھر ممنوع ہیں)
حدیث نمبر: 721
721 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذُكِرَ لَهُ صَوْمِي، فَدَخَلَ عَلَيَّ، فَأَلْقَيْتُ لَهُ وِسَادَةً مِنْ أَدَمٍ، حَشْوُهَا لِيفٌ، فَجَلَسَ عَلَى الأَرْضِ، وَصَارَتِ الْوِسَادَةُ بَيْنِي وَبَيْنَهُ؛ فَقَالَ: أَمَا يَكْفِيكَ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلاَثَةُ أَيَّامٍ قَالَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: خَمْسًا قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: سَبْعًا قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: تِسْعًا قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: إِحْدَى عَشْرَةَ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ صَوْمَ فَوْقَ صَوْمِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، شَطرَ الدَّهْرِ، صُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا
سیّدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے روزے کے متعلق خبر ہو گئی (کہ میں مسلسل روزے رکھتا ہوں) آپ میرے یہاں تشریف لائے اور میں نے ایک گدا آپ کے لئے بچھا دیا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر بیٹھ گئے اور تکیہ میرے اور آپ کے درمیان ہو گیا آپ نے فرمایا کہ کیا تمہارے لئے ہر مہینہ میں تین دن کے روزے کافی نہیں ہیں؟ میں نے عرض کی یا رسول اللہ (کچھ اور بڑھا دیجئے) آپ نے فرمایا اچھا پانچ دن کے روزے (رکھ لے) میں نے عرض کی یا رسول اللہ کچھ اور آپ نے فرمایا چلو چھ دن میں نے عرض کی یا رسول اللہ(کچھ اور بڑھائیے مجھ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے) آپ نے فرمایا اچھا نو دن میں نے عرض کی یا رسول اللہ کچھ اور فرمایا اچھا گیارہ دن آخر آپ نے فرمایا کہ داؤد علیہ السلام کے روزے کے طریقے کے سوا اور کوئی طریقہ (شریعت میں) جائز نہیں یعنی زندگی کے آدھے دنوں میں ایک دن کا روزہ کھ اور ایک دن کا روزہ چھوڑ دیا کرے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصيام/حدیث: 721]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 30 كتاب الصوم: 59 باب صوم داود عليه السلام»