1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الزكاة
کتاب: زکوٰۃ کا بیان
316. باب تخوف ما يخرج من زهرة الدنيا
316. باب: دنیا کی پر فریب زینت سے ڈرانے کا بیان
حدیث نمبر: 625
625 صحيح حديث أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَكْثَرَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ مَا يُخْرِجُ اللهُ لَكُمْ مِنْ بَرَكَاتِ الأَرْضِ قِيلَ: وَمَا بَرَكَات الأَرْضِ قَالَ: زَهْرَة الدُّنْيَا فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: هَلْ يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ فَصَمَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ يُنْزَلُ علَيْهِ، ثُمَّ جَعَلَ يَمْسَحُ عَنْ جَبِينِهِ، فَقَالَ: أَيْنَ السَّائِلُ قَالَ: أَنَا قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: لَقَدْ حَمِدْنَاهُ حِينَ طَلَعَ ذلِكَ، قَال: لاَ يَأْتِي الْخَيْرُ إِلاَّ بِالْخَيْرِ، إِنَّ هذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، وَإِنَّ كُلَّ مَا أَنْبَتَ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ حَبَطًا أَوْ يُلِمُّ، إِلاَّ آكِلَةَ الْخَضِرَةِ، أَكَلَتْ، حَتَّى إِذَا امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاهَا اسْتَقْبَلَتِ الشَمْسَ فَاجْتَرَّتْ وَثَلَطَتْ وَبَالَتْ، ثُمَّ عَادَتْ فَأَكَلَتْ؛ وَإِنَّ هذَا الْمَالَ حُلْوَةٌ، مَنْ أَخَذَهُ بِحَقِّهِ، وَوَضَعَهُ فِي حَقِّهِ فَنِعْمَ الْمَعُونَةُ هُوَ؛ وَمَنْ أَخَذَهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ كَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلاَ يَشْبَعُ
سیّدناابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہارے متعلق سب سے زیادہ اس سے خوف کھاتا ہوں کہ جب اللہ تعالیٰ زمین کی برکتیں تمہارے لئے نکال دے گا پوچھا گیا زمین کی برکتیں کیا ہیں؟ فرمایا کہ دنیا کی چمک دمک اس پر ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا بھلائی سے برائی پیدا ہو سکتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خاموش ہو گئے اور ہم نے خیال کیا کہ شاید آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے اس کے بعد آپ اپنی پیشانی کو صاف کرنے لگے اور دریافت فرمایا پوچھنے والے کہاں ہیں؟ پوچھنے والے نے کہا کہ حاضر ہوں سیّدناابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب اس سوال کا حل ہمارے سامنے آ گیا تو ہم نے ان صاحب کی تعریف کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بھلائی سے تو صرف بھلائی ہی پیدا ہوتی ہے لیکن یہ مال سر سبز اور خوشگوار (گھاس کی طرح) ہے اور جو چیزیں بھی ربیع کے موسم میں اگتی ہیں وہ حرص کے ساتھ کھانے والوں کو ہلاک کر دیتی ہیں یا ہلاکت کے قریب پہنچا دیتی ہیںسوائے اس جانور کے جو پیٹ بھر کے کھائے کہ جب اس نے کھا لیا اور اس کی دونوں کوکھ بھر گئیں تو اس نے سورج کی طرف منہ کر کے جگالی کر لی اور پھر پاخانہ پیشاب کر دیا اور اس کے بعد پھر لوٹ کے کھا لیا اور یہ مال بھی بہت شیریں ہے جس نے اسے حق کے ساتھ لیا اور حق میں خرچ کیا تو وہ بہترین ذریعہ ہے اور جس نے اسے ناجائز طریقہ سے حاصل کیا تو وہ اس شخص جیسا ہے جو کھاتا جاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزكاة/حدیث: 625]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 7 باب ما يحذر من زهرة الدنيا والتنافس فيها»

وضاحت: امام نووی مسلم کی شرح میں فرماتے ہیں اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جو تم دنیا کا مال و دولت اور اس کی رونق حاصل کرتے ہو یہ خیر اور بھلائی نہیں بلکہ فتنہ ہے۔ اصل یوں ہے کہ بھلائی کا تعلق خیر سے ہے لیکن دنیا کا مال اور اس کی رونق خیر نہیں ہے کیونکہ یہ انسان کو فتنہ میں ڈالتی ہے اور آخرت سے غافل اور بے رغبت بنا کر دنیا سے محبت کرنا سکھاتی ہے۔ پھر بطور مثال مذکورہ حدیث بیان کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ربیع کی فصلیں اور ان کا سبزہ اور چارا، زیادہ کھانے کے وجہ سے، بد ہضمی کے سبب ہلاک کر دیتا ہے یا مرنے کے قریب کر دیتا ہے۔ مگر جب ضر ورت کے تحت تھوڑی سی مقدار پر اکتفا کیا جائے، تو یہ نقصان نہیں دیتا۔ اسی طرح نفس انسانی ایسے مال کے طلب کرنے کو اچھا اور مستحسن جانتے ہیں اور اس کی طرف مائل ہوتے ہیں تو بعض لوگ اس کو زیادہ حاصل کرتے ہیں لیکن وہ اسے اس کے مصارف میں خرچ نہ کرتے ہوئے اس میں مستغرق رہتے ہیں تو انہیں یہ مال ہلاک کر دیتا ہے یا ہلاکت کے قریب کر دیتا ہے۔ لیکن بعض لوگ دنیا کا مال تھوڑا سا حاصل کرتے ہیں۔ اور اگر زیادہ لے لیتے ہیں تو اسے اس کے مصارف میں خرچ کر دیتے ہیں تو یہ مال انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاتا۔ (مرتبؒ)