1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الزكاة
کتاب: زکوٰۃ کا بیان
308. باب بيان أن اليد العليا خير من اليد السفلى وأن اليد العليا هي المنفقة وأن السفلى هي الآخذة
308. باب: اوپر والا ہاتھ نیچے والے سے بہتر ہے، اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہے
حدیث نمبر: 614
614 صحيح حديث حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رضي الله عنه، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي؛ ثُمَّ قَالَ: يَاحَكِيمُ إِنَّ هذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلاَ يَشْبَعُ، الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى قَالَ حَكِيمٌ: فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لاَ أَرْزأْ أَحَدًا بَعْدكَ شَيْئًا حَتَّى أُفَارِقَ الدُّنْيَا فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رضي الله عنه، يَدْعُو حَكِيمًا إِلَى الْعَطَاءِ، فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَهُ مِنْهُ ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ رضي الله عنه دَعَاهُ لِيُعْطِيَهُ، فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا فَقَالَ عُمَرُ: إِنِّي أُشْهِدُكُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى حَكِيمٍ، أَنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّهُ مِنْ هذَا الْفَيْءِ فَيَأْبَى أَنْ يَأْخُذَهُ فَلَمْ يَرْزَأْ حَكِيمٌ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى تُوُفِّيَ
سیّدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا میں نے پھر مانگا اور آپ نے پھر عطا فرمایا میں نے پھر مانگا آپ نے پھر بھی عطا فرمایا اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا اے حکیم یہ دولت بڑی سر سبز اور بہت ہی شیریں ہے لیکن جو شخص اس سے اپنے دل کو سخی رکھ لے تو اس کی دولت میں برکت ہوتی ہے اور جو لالچ کے ساتھ لیتا ہے تو اس کی دولت میں کچھ بھی برکت نہیں ہو گی اس کا حال اس شخص جیسا ہو گا جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا (یاد رکھو) اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے سیّدناحکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے عرض کی اس ذات کی قسم جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ مبعوث کیا ہے اب اس کے بعد میں کسی سے کوئی چیز نہیں لوں گا تاآنکہ اس دنیا ہی سے میں جدا ہو جاؤں چنانچہ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سیّدناحکیم کو ان کا حصہ دینے کو بلاتے تو وہ لینے سے انکار کر دیتے پھر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی انہیں ان کا حصہ دینا چاہا تو انہوں نے اس کے لینے سے انکار کر دیا اس پر سیّدناعمر نے فرمایا کہ مسلمانو میں تمہیں حکیم بن حزام کے معاملہ میں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کا حق انہیں دینا چاہا لیکن انہوں نے لینے سے انکار کر دیا غرض حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسی طرح کسی سے بھی کوئی چیز لینے سے ہمیشہ انکار ہی کرتے رہے یہاں تک کہ آپ وفات پا گئے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزكاة/حدیث: 614]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 24 كتاب الزكاة: 50 باب الاستعفاف عن المسئلة»