ابن شہاب کی روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ایک دن (عصر کی) نماز میں دیر کی پس عروہ بن زبیر ان کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں بتایا کہ (اسی طرح) مغیرہ بن شعبہ نے ایک دن (عراق میں) نماز میں دیر کی تھی جب وہ عراق میں (حاکم) تھے پس ابو مسعود انصاری ان کی خدمت میں گئے اور فرمایا مغیرہ آخر یہ کیا بات ہے کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جب جبریل تشریف لائے تو انہوں نے نماز پڑھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی پھر جبریل نے نماز پڑھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی پھر جبریل علیہ السلام نے نماز پڑھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی پھر جبریل نے نماز پڑھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی پھر جبریل نے نماز پڑھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی پھر جبریل نے کہا کہ میں اسی طرح حکم کیا گیا ہوں اس پر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے عروہ سے کہا معلوم بھی ہے آپ کیا بیان کر رہے ہیں؟ کیا جبریل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے اوقات (عمل کر کے) بتلائے تھے عروہ نے کہا ہاں اسی طرح بشیر بن ابی مسعود اپنے والد کے واسطہ سے بیان کرتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 355]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 1 باب مواقيت الصلاة وفضلها»