سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہاں کے بلند حصہ میں بنی عمرو بن عوف کے یہاں آپ اترے اور یہاں چوبیس رات قیام فرمایا پھر آپ نے بنو نجار کو بلا بھیجا تو وہ لوگ تلواریں لٹکائے ہوئے آئے سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا گویا میری نظروں کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر تشریف فرما ہیں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پ کے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں اور بنو نجار کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف ہیں یہاں تک کہ آپ ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے گھر کے سامنے اترے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پسند کرتے تھے کہ جہاں بھی نماز کا وقت آ جائے فورا نماز ادا کرلیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کے باڑوں میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں مسجد بنانے کے لئے فرمایا چنانچہ بنو نجار کے لوگوں کو آپ نے بلوا کر فرمایا اے بنو نجار تم اپنے اس باغ کی قیمت مجھ سے لے لو انہوں نے جواب دیا اے اللہ کے رسول! نہیں اس کی قیمت ہم صرف خداوند تعالیٰ سے مانگتے ہیں سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں جیسا کہ تمہیں بتا رہا تھا یہاں مشرکین کی قبریں تھیں اس باغ میں ایک ویران جگہ تھی اور کچھ کھجور کے درخت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی قبروں کو اکھڑوا دیا ویرانہ کو صاف اور برابر کرایا اور درختوں کو کٹوا کر ان کی لکڑیوں کو مسجد کے قبلہ کی جانب بچھا دیا اور پتھروں کے ذریعہ انہیں مضبوط بنا دیا صحابہ پتھر اٹھاتے ہوئے رجز پڑھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ تھے اور یہ کہہ رہے تھے: اے اللہ آخرت کے فائدہ کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہیں۔ پس انصار و مہاجرین کی مغفرت فرمائیو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 301]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 48 باب هل تنبش قبور مشركي الجاهلية ويتخذ مكانها مساجد»