حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت جن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے، ابن صیاد (یہودی لڑکا) کے یہاں جا رہی تھی۔ آخر بنومغالہ (ایک انصاری قبیلے) کے ٹیلوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے ان لوگوں نے اسے پا لیا، ابن صیاد بالغ ہونے کے قریب تھا۔ اسے (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا) پتہ نہ چلا۔ حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کے قریب پہنچ کر) اپنا ہاتھ اس کی پیٹھ پر مارا، اور فرمایا کیا تو اس کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھا، اور پھر کہنے لگا۔ ہاں! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان پڑھوں کے نبی ہیں۔ اس کے بعد اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ آپ نے اس کا جواب (صرف اتنا) دیا کہ میں اللہ اور اس کے (سچے) انبیاء پر ایمان لایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، تو کیا دیکھتا ہے؟ اس نے کہا کہ میرے پاس ایک خبر سچی آتی ہے تو دوسری جھوٹی بھی۔ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ حقیقت حال تجھ پر مشتبہ ہو گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اچھا میں نے تیرے لئے اپنے دل میں ایک بات سوچی ہے (بتا وہ کیا ہے؟) ابن صیاد بولا کہ دھواں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ذلیل ہو، کمبخت!تو اپنی حیثیت سے آگے نہ بڑھ سکے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! مجھے اجازت ہو تو میں اس کی گردن مار دوں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر یہ وہی (دجال) ہے تو تم اس پر قادر نہیں ہو سکتے اور اگر دجال نہیں ہے تو اس کی جان لینے میں کوئی خیر نہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفتن وأشراط الساعة/حدیث: 1851]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 178 باب كيف يعرض الإسلام على الصبي»