1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب التوبة
کتاب: توبہ کرنے کا بیان
915. باب في حديث الإفك وقبول توبة القاذف
915. باب: واقعہ افک کا بیان اور تہمت طراز کی توبہ کی قبولیت
حدیث نمبر: 1764
1764 صحيح حديث عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا ذُكِرَ مِنْ شَأْنِي الَّذِي ذُكِرَ، وَمَا عَلِمْتُ بِهِ، قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيَّ خَطِيبًا فَتَشَهَّدَ، فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي أُنَاسٍ أَبْنُوا أَهْلِي، وَايْمُ اللهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي مِنْ سُوءٍ وَأَبَنُوهُمْ بِمَنْ، وَاللهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُوءٍ قَطُّ وَلاَ يَدْخُلُ بَيْتِي قَطُّ إِلاَّ وَأَنَا حَاضِرٌ وَلاَ غِبْتُ فِي سَفَرٍ إِلاَّ غَابَ مَعِي قَالَتْ: وَلَقَدْ جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِي فَسَأَلَ عَنِّي خَادِمَتِي فَقَالَتْ: لاَ وَاللهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا عَيْبًا إِلاَّ أَنَّهَا كَانَتْ تَرْقُدُ حَتَّى تَدْخُلَ الشَّاةُ فَتَأْكُلَ خَمِيرَهَا أَوْ عَجِينَهَا وَانْتَهَرَهَا بَعْضُ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: اصْدُقِي رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى أَسْقَطُوا لَهَا بِهِ فَقَالَتْ سُبْحَانَ اللهِ وَاللهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا إِلاَّ مَا يَعْلَمُ الصَّائِغُ عَلَى تِبْرِ الذَّهَبِ الأحْمَرِ وَبَلَغَ الأَمْرُ إِلَى ذَلِكَ الرَّجُلِ الَّذِي قِيلَ لَهُ فَقَالَ: سُبْحَانَ اللهِ وَاللهِ مَا كَشَفْتُ كَنَفَ أُنْثى قَطُّ قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُتِلَ شَهِيدًا فِي سَبِيلِ اللهِ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ جب میرے متعلق ایسی باتیں کہی گئیں جن کا مجھے گمان بھی نہیں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے معاملہ میں لوگوں کو خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ نے شہادت کے بعد اللہ کی حمد و ثناء اسکی شان کے مطابق بیان کی، پھر فرمایا، اما بعد! تم لوگ مجھے ایسے لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری بیوی کو بدنام کیا ہے اور اللہ کی قسم کہ میں نے اپنی بیوی میں کوئی برائی نہیں دیکھی اور تہمت بھی ایسے شخص (حضرت صفوان بن معطل) کے ساتھ لگائی ہے کہ اللہ کی قسم، ان میں بھی میں نے کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی۔ وہ میرے گھر میں جب بھی داخل ہوئے تو میری موجودگی ہی میں داخل ہوئے اور اگر میں کبھی سفر کی وجہ سے مدینہ نہیں ہوتا تو وہ بھی نہیں ہوتے اور وہ میرے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرہ میں تشریف لائے تھے اور میری خادمہ (بریرہ) سے میرے متعلق پوچھا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ نہیں، خدا کی قسم میں ان کے اندر کوئی عیب نہیں جانتی، البتہ ایسا ہو جایا کرتا تھا (کم عمری کی غفلت کی وجہ سے) کہ (آٹا گوندھتے ہوئے) سو جایا کرتی اور بکری آ کر ان کا گندھا ہوا آٹا کھا جاتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ نے ڈانٹ کر ان سے کہا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بات صحیح صحیح کیوں نہیں بتا دیتی۔ پھر انہوں نے کھول کر صاف لفظوں میں ان سے واقعہ کی تصدیق چاہی۔ اس پر وہ بولیں کہ سبحان اللہ، میں تو عائشہ رضی اللہ عنہاکو اس طرح جانتی ہوں جس طرح سنار کھرے سونے کو جانتا ہے۔ اس تہمت کی خبر جب ان صاحب کو معلوم ہوئی جن کے ساتھ تہمت لگائی گئی تھی (یعنی صفوان بن معطل) تو انہوں نے کہا کہ سبحان اللہ، اللہ کی قسم! میں نے آج تک کسی (غیر) عورت کا کپڑا نہیں کھولا۔ عائشہ رضی اللہ عنہانے کہا کہ پھر انہوں نے اللہ کے راستے میں شہادت پائی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب التوبة/حدیث: 1764]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 24 سورة النور: 11 باب إن الذين يحبون أن تشيع الفاحشة في الذين آمنوا»