1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب فضائل الصحابة
کتاب: صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے فضائل
848. باب قَوْلِهِ ﷺ: لاَ تَأْتِي مِائَةُ سَنَةٍ وَعَلَى الأَرْضِ نَفْسٌ مَنْفُوسَةٌ الْيَوْمَ
848. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ ’’اس صدی کے آخر تک موجود لوگوں میں سے کوئی زندہ نہ ہو گا‘‘
حدیث نمبر: 1648
1648 صحيح حَدِيثُ عَبْدِ الله بْنِ عُمَرَ، قَالَ: صلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ العِشَاءَ، في آخِرِ حَيَاتِهِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ، فَقَالَ: «أَرَأَيْتَكُمْ لَيْلَتَكُمْ هذِهِ؟ فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا، لاَ يَبْقَى، مِمَّنْ هُوَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ، أَحَدٌ»
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے فرمایا کہ آخر عمر میں (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ تمھاری آج کی رات وہ ہے کہ اس رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے وہ باقی نہیں رہے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1648]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجہ البخاري في: 3 کتاب العلم: 22 باب السمَر في العلم۔»

وضاحت: مطلب یہ ہے کہ آج کی رات میں جس قدر انسان زندہ ہیں، سو سال کے آخر تک یہ سب ختم ہو جائیں گے، اس رات کے بعد جو نسلیں پیدا ہوں گی، ان کی زندگی کی نفی مراد نہیں ہے۔ محققین کے نزدیک اس کا مطلب یہی ہے اور یہی ظاہر لفظوں سے سمجھ میں آتا ہے۔ چنانچہ سب سے آخری صحابی حضرت ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ کا ٹھیک سو برس بعد ۱۱۰ سال کی عمر میںانتقال ہوا۔ (راز)