حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب بنایا۔ علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جا رہے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ میرے لیے تم ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1556]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 78 باب غزوة تبوك وهي غزوة العسرة»
وضاحت: امام نووی رحمہ اللہ مسلم کی شرح میں فرماتے ہیں کہ قاضی عیاض نے فرمایا ہے اس حدیث سے روافض اور امامیہ فرقے نے بلکہ تمام شیعہ جماعتوں نے دلیل لی ہے کہ خلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق تھا انہیں اس کی وصیت بھی کی گئی تھی۔ فرماتے ہیں پھر یہ فرقے خود اختلاف کا شکار ہو گئے ہیں۔ روافض نے تو تمام صحابہ کو کافر قرار دیا کیونکہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مقدم نہیں رکھا اور بعض شیعوں نے مزید تجاوز کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی کافر قرار دیا کہ وہ اپنا حق طلب کرنے کے لیے کھڑے کیوں نہ ہوئے۔ یہ سب گھٹیا مذہب کے لوگ ہیں اور عقل کے اعتبار سے فاسد کہ ان کی بات کا رد کیا جائے یا ان سے مناظرہ کیا جائے۔ حالانکہ اس حدیث میں ان کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں کہ وہ سیّدناعلی رضی اللہ عنہ کی(اصحابِ ثلاثہ پر) فضیلت کو ثابت کر سکیں۔ کیونکہ اس میں کوئی ایسا اشارہ موجود نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کسی سے افضل ہیں یا فلاں کے مثل ہیں۔ نہ اس میں یہ دلیل ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ ہوں گے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ بات اس وقت فرمائی تھی جب انہیں مدینہ میں امیر مقرر فرما کر خود باقی تمام صحابہ کو لے کر غزوہ تبوک کی طرف گئے تھے جس کی تائید یہ بات بھی کرتی ہے کہ ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ نہیں بنے تھے بلکہ وہ تو موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں فوت ہو گئے تھے۔ حضرت ہارون کو تو موسیٰ علیہ السلام نے اس وقت اپنا جانشین بنایا تھا جب خود اپنے رب سے مناجات و گفتگو کے لیے میقات (طور پہاڑ) کو روانہ ہوئے تھے۔ (مرتب)