1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الصيد والذبائح ما يؤكل من الحيوان
کتاب: شکار اور ذبح کے مسائل اور ان جانوروں کا بیان جن کا گوشت حلال ہے
662. باب إِباحة الضب
662. باب: گوہ کا گوشت حلال ہے
حدیث نمبر: 1273
1273 صحيح حديث خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَلَى مَيْمُونَةَ، وَهِيَ خَالَتُهُ، وَخَالَةُ ابْن عَبَّاسٍ، فَوَجَدُ عِنْدَهَا ضَبًّا مَحْنُوذًا قَدِمَتْ بِهِ أُخْتُهَا، حُفَيْدَةُ بِنْتُ الْحارِثِ، مِنْ نَجْدٍ فَقَدَّمَتِ الضَّبَّ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ، قَلَّمَا يُقَدِّمُ يَدَهُ لِطَعَامٍ، حَتَّى يُحَدَّثَ بِهِ وَيُسَمَّى لَهُ فَأَهْوَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَدَهُ إِلَى الضَّبِّ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنَ النِّسْوَةِ الْحُضُورِ: أَخْبِرْنَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا قَدَّمْتُنَّ لَهُ، هُوَ الضَّبُّ يَا رَسُولَ اللهِ فَرَفَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَدَهُ عَنِ الضَّبِّ فَقَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ: أَحَرَامٌ الضَّبُّ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: لاَ، وَلكِنْ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِ قَوْمِي، فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ، قَالَ خَالِدٌ: فَاجْتَرَرْتُهُ فَأَكَلْتُهُ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ إِلَيَّ
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ رسول اللہ کے ساتھ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں داخل ہوئے۔ ام المومنین ان کی اور ابن عباس رضی اللہ عنہماکی خالہ تھیں۔ ان کے یہاں بھنی ہوئی گوہ موجود تھی جو ان کی بہن حفیدہ بنت الحارث رضی اللہ عنہ نجد سے لائی تھیں۔ انہوں نے وہ بھنی ہوئی گوہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی۔ ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کھانے کے لئے اس وقت تک ہاتھ بڑھائیں جب تک آپ کو اس کے متعلق بتا نہ دیا جائے کہ یہ فلانا کھانا ہے لیکن اس دن آپ نے بھنی ہوئی گوہ کے گوشت کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ اتنے میں وہاں موجود عورتوں میں سے ایک عورت نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا کیوں نہیں دیتیں کہ اس وقت آپ کے سامنے جو تم نے پیش کیا ہے وہ گوہ ہے، یا رسول اللہ!۔ (یہ سن کر) آپ نے اپنا ہاتھ گوہ سے ہٹا لیا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بولے کہ یا رسول اللہ!کیا گوہ حرام ہے؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں لیکن یہ میرے ملک میں چونکہ نہیں پائی جاتی اس لئے طبیعت پسند نہیں کرتی۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور اسے کھایا۔ اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ رہے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصيد والذبائح ما يؤكل من الحيوان/حدیث: 1273]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 70 كتاب الأطعمة: 10 باب ما كان النبي صلی اللہ علیہ وسلم لا يأكل حتى يسمى له فيعلم ما هو»

وضاحت: راوي حدیث:… حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ ٓپ کی والدہ لبابہ الصغری ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں آپ کا تعلق مخزوم قبیلہ سے تھا۔ جاہلیت میں قریش کے سرداروں میں شمار کیے جاتے تھے۔ غزوہ احد میں جبکہ آپ مشرکین مکہ کے لشکر کے سپہ سالار تھے آپ ہی کی چال سے مسلمانوں کی فتح شکست میں بدل گئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو سیف اللہ کا خطاب دیا تھا۔ آپ جس غزوے میں بھی گئے تو اللہ تعالیٰ نے فتح و کامرانی سے ہمکنار کیا حتیٰ کہ حضرت عمر کے زمانہ میں لوگوں کا یہ عقیدہ بنتا جا رہا تھا کہ فتح خالد بن الولید کا اپنا ہنر اور فن ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو کہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرنے والے اور موحد تھے نے انہیں معزول کر دیا لیکن آپ ایک سپاہی کی حیثیت سے جہاد میں حصہ لیتے رہے۔ فرمایا کرتے تھے کہ میرے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں جس پر زخم نہ آیا ہو مگر شہادت کا جذبہ رکھنے کے باوجود ۲۱ ہجری کو بستر پر فوت ہوئے۔ اور اس حدیث کے مصداق ٹھہرے کہ جس نے خالص شہادت کی نیت سے جہاد کیا وہ شہید ہے خواہ بستر پر موت آئے۔