سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے اور گندگی کو روندنے سے وضو نہیں کرتے تھے۔ مخزومی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وضو کیا کرتے تھے لیکن گندگی روندنے سے (دوبارہ) وضو نہیں کرتے تھے۔ زُبری کی روایت میں ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے تھے تو گندگی روندنےسےوضو نہیں کرتےتھے۔ اما م ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں ایک علت ہے، (وہ یہ کہ) اعمش نےیہ حدیث شقیق سے نہیں سنی، میں اسے بروقت سمجھ نہ سکا، (یعنی بوقت روایت یہ علت مجھ سے مخفی رہی) سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ ہی سے دوسری روایت ہے کہ الفاظ اس طرح ہیں کہ ہم نماز میں بالوں اور کپڑوں کو اکٹھا نہیں کیا کرتے تھے (ان کو سنبھالتے نہ تھے بلکہ سجدے کے دوران زمین پر لگنے دیتے تھے) اور نہ گندگی روندنے کے بعد وضو کرتے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَفْعَالِ اللَّوَاتِي لَا تُوجِبُ الْوُضُوءَُ/حدیث: 37]
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح، سنن ابي داود، كتاب الطهارة، باب فى الرجل يطأ الاذى برحله، رقم الحديث: 204، سنن ابن ماجه: 477، الحاكم: 139/1، من طريق سفيان من الأعمش»
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 37
فوائد:
یہ احادیث دلیل ہیں کہ دوران نماز بال اور کپڑا نہیں لپیٹنا چاہیے، نیز جوتا وغیرہ کو گندگی لگنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، بلکہ اس نجاست کو زائل کر کے نماز پڑھنا مباح ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 37