جناب ایوب کہتے ہیں کہ حضرت ابوقلابہ نے مجھے یہ حدیث بیان کی تھی پھر اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ کیا تمہیں اس استاد کی معرفت حاصل کرنے کا شوق ہے جس نے مجھے یہ حدیث بیان کی تھی؟ پھر مجھے اس کے بارے میں بتایا تو میں اُنہیں ملا۔ اُنہوں نے کہا کہ مجھے میرے قریبی رشتہ دار سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے اونٹوں کے سلسلے حاضر ہوا جو کہ پکڑ لیے گئے تھے، تو میں اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ کھانا کھا رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کھانا کھانے کی دعوت دی تو میں نے عرض کی کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہو جاؤ یا فرمایا کہ آجاؤ(کھالو) میں تمہیں اس بارے میں خبر دوگا۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے مسافر سے روزہ اور آدھی نماز معاف کر دی ہے۔ اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو بھی (روزہ معاف کر دیا ہے)“ سیدنا انس رضی اللہ عنہ اس کے بعد فرمایا کرتے کہ اے کاش، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے میں سے کھا لیتا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ روایت اسی قسم سے تعلق رکھتی ہے جسے میں نے کتاب الایمان میں بیان کیا ہے کہ نصف کا اطلاق کسی چیز کے کسی حصّے پر بھی ہو جاتا ہے اگر چہ وہ حّصہ مکمّل طور پر آدھا بھی نہ ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر سے شطر (آدھی) نماز معاف کر دی ہے۔ اس مقام پر شطر کا معنی نصف ہے۔ اس جگہ شطر کا معنی طرف، سمت اور جہت نہیں ہے۔ میری مراد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے «فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ» [ سورة البقرة: 144 ]”تو تم مسجد حرام کی طرف اپنے چہرے کو پھیرلو۔“(اس میں شطر کا معنی، طرف اور جہت ہے) اور اللہ تعالیٰ نے مسافر سے مکمّل آدھی نماز معاف نہیں کی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسافر کو نماز فجراور مغرب سے کچھ نماز معاف نہیں کی۔ [صحيح ابن خزيمه/حدیث: 2042]