الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ
کتاب: طہارت کے مسائل
43. باب أَيُصَلِّي الرَّجُلُ وَهُوَ حَاقِنٌ
43. باب: کیا آدمی پیشاب و پاخانہ روک کر نماز پڑھ سکتا ہے؟
حدیث نمبر: 88
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَرْقَمِ، أَنَّهُ خَرَجَ حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا وَمَعَهُ النَّاسُ وَهُوَ يَؤُمُّهُمْ، فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ أَقَامَ الصَّلَاةَ صَلَاةَ الصُّبْحِ، ثُمَّ قَالَ: لِيَتَقَدَّمْ أَحَدُكُمْ وَذَهَبَ إِلَى الْخَلَاءِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِذَا أَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يَذْهَبَ الْخَلَاءَ وَقَامَتِ الصَّلَاةُ، فَلْيَبْدَأْ بِالْخَلَاءِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى وُهَيْبُ بْنُ خَالِدٍ، وَشُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ، وَأَبُو ضَمْرَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلٍ حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَرْقَمَ، وَالْأَكْثَرُ الَّذِينَ رَوَوْهُ عَنْ هِشَامٍ، قَالُوا كَمَا قَالَ زُهَيْرٌ.
عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ حج یا عمرہ کے لیے نکلے، ان کے ساتھ اور لوگ بھی تھے، وہی ان کی امامت کرتے تھے، ایک دن انہوں نے فجر کی نماز کی اقامت کہی پھر لوگوں سے کہا: تم میں سے کوئی امامت کے لیے آگے بڑھے، وہ قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے لیے یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جب تم میں سے کسی کو پاخانہ کی حاجت ہو اور اس وقت نماز کھڑی ہو چکی ہو تو وہ پہلے قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے لیے جائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: وہیب بن خالد، شعیب بن اسحاق اور ابوضمرۃ نے بھی اس حدیث کو ہشام بن عروہ سے روایت کیا ہے، ہشام نے اپنے والد عروہ سے، اور عروہ نے ایک مبہم شخص سے، اور اس نے اسے عبداللہ بن ارقم سے بیان کیا ہے، لیکن ہشام سے روایت کرنے والوں کی اکثریت نے اسے ویسے ہی روایت کیا ہے جیسے زہیر نے کیا ہے (یعنی «عن رجل» کا اضافہ نہیں کیا ہے)۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 88]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الطھارة 108 (142)، سنن النسائی/الإمامة 51 (851)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 114 (616)، (تحفة الأشراف: 5141)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ صلاة السفر 17 (49)، مسند احمد (4/35)، سنن الدارمی/الصلاة 137 (1467) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
مشكوة المصابيح (1069)
عروة صرح بالسماع عند البخاري في تاريخ كبير (5/33) وسنده صحيح

   سنن أبي داودإذا أراد أحدكم أن يذهب الخلاء وقامت الصلاة فليبدأ بالخلاء
   جامع الترمذيإذا أقيمت الصلاة ووجد أحدكم الخلاء فليبدأ بالخلاء
   سنن النسائى الصغرىإذا وجد أحدكم الغائط فليبدأ به قبل الصلاة
   سنن ابن ماجهإذا أراد أحدكم الغائط وأقيمت الصلاة فليبدأ به
   مسندالحميديإذا أقيمت الصلاة ووجد أحدكم الغائط فليبدأ بالغائط

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 88 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 88  
فوائد و مسائل:
➊ نماز کی قبولیت میں خشوع و خضوع انتہائی بنیادی امر ہے۔ اس کے لیے پوری پوری محنت اور کوشش کرنی چاہیے اور ہر اس حالت سے بچنا چاہئیے، جو اس میں خلل انداز ہو سکتی ہو۔ لہٰذا بیت الخلاء جانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہو تو پہلے اس سے فارغ ہونا چاہیے۔
➋ ایسے ہی کھانے کا مسئلہ ہے جب کھانا تیار ہو اور بھوک بھی ہو تو پہلے کھانا کھا لینا چاہیے۔ جیسے کہ درج ذیل حدیث میں آ رہا ہے۔
➌ لمبے سفروں میں مسنون یہ ہے کہ اجتماعیت قائم رکھی جائے۔ ایک شخص کو اپنا امیر سفر بنا لیا جائے جیسے کہ سیدنا عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ کے بارے میں اوپر بیان ہوا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 88   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 853  
´جماعت چھوڑنے کے عذر کا بیان۔`
عروہ روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ اپنے لوگوں کی امامت کرتے تھے، ایک دن نماز کا وقت آیا، تو وہ اپنی حاجت کے لیے چلے گئے، پھر واپس آئے اور کہنے لگے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا ہے: جب تم میں سے کوئی پاخانہ کی حاجت محسوس کرے، تو نماز سے پہلے اس سے فارغ ہو لے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 853]
853 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اس دن وہ خود تشریف نہ لائے تھے۔ اپنی جگہ ایک آدمی بھیج دیا تھا جس نے امامت کروائی۔ نماز کے بعد پہنچے تو معذرت فرمائی۔
➋ قضائے حاجت محسوس ہو تو نماز سے پہلے فارغ ہولینا چاہیے، خواہ جماعت گزر ہی جائے کیونکہ فراغت کے بغیر نماز کی صورت میں توجہ ہٹتی رہے گی، ذہن منتشر رہے گا اور پیٹ میں گڑبڑ ہوتی رہے گی۔ فراغت کے بعد سکون سے نماز پڑھی جائے گی۔ باقی رہا جماعت کا ثواب تو ان شاء اللہ جماعت کے پابند شخص کو عذر کی صورت میں ملے گا جیسا کہ شرعی اصل (اصول) ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 853   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث616  
´پیشاب یا پاخانہ روک کر نماز پڑھنے کی ممانعت۔`
عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی شخص قضائے حاجت کا ارادہ کرے، اور نماز کے لیے اقامت کہی جائے، تو پہلے قضائے حاجت سے فارغ ہو لے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 616]
اردو حاشہ:
اس کی حکمت یہ ہے کہ اگر اسی کیفیت میں نماز شروع کرے گا تو توجہ نماز کی طرف نہیں ہوسکے گیا اور اطمینان سے نماز ادا نہیں کرسکے گا، اس لیے ضروری ہے کہ اس حاجت سے فارغ ہوکر نماز شروع کرے تاکہ توجہ اور اطمینان سے نماز پڑھ سکے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 616   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:896  
896- سیدنا عبداللہ بن ارقم زہری رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات منقول ہے ایک مرتبہ وہ مکہ تشریف لے جا رہے تھے کچھ لوگ ان کے ساتھ تھے وہ ان کی امامت کیا کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے نماز کے لیے اقامت کہی اور ایک اور شخص کو آگے کر دیا اور یہ بات بیان کی: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: جب نماز کے لیے اقامت کہہ لی جائے اور کسی شخص کو قضائے حاجت کی ضرورت محسوس ہو، تو اسے پہلے قضائے حاجت کر لینی چاہیے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:896]
فائدہ:
اس حدیث میں نماز کے آداب میں سے ایک اہم ادب کا ذکر ہے کہ اگر قضائے حاجت کی ضرورت ہو تو پہلے اس سے فارغ ہونا چاہیے، پھر نماز پڑھنی چاہیے، خواد جماعت کے بغیر ہی پڑھنی پڑھے۔ کیونکہ اگر قضائے حاجت کی ضرورت بھی ہو اور انسان ویسے ہی نماز پڑھے تو نماز میں خشوع و خضوع نہیں ہو گا، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ہر وہ کام جس سے نماز میں توجہ بٹ جائے، وہ نہیں کرنا چاہیے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 895