حمید سے اسی کے مثل مروی ہے، اس میں راوی نے نفل کا ذکر نہیں کیا ہے، اس میں ہے کہ حسن بصری ظہر اور عصر میں خواہ وہ امام ہوں یا امام کے پیچھے ہوں، سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے اور سورۃ ”ق“ اور سورۃ ”ذاریات“ پڑھنے کے بقدر (وقت میں) تسبیح و تکبیر اور تہلیل کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 834]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 2220، 18513) (ضعیف مقطوع ولکن فعلہ صحیح وثابت)» (جابر رضی اللہ عنہ کا اثر ضعیف ہے، اور حسن بصری کا فعل صحیح ہے، قرأت پر قادر آدمی کے لئے قرأت فرض ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح مقطوع
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف انظر الحديث السابق (833) وثبت عن الحسن البصري القول بالفاتحة خلف الإمام،أخرجه ابن أبي شيبة (374/1) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 43
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 834
834۔ اردو حاشیہ: پہلی حدیث منقطع ہے، اور دوسری جناب حسن بصری رحمہ اللہ کا عمل۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اعمال ہی میں خیر اور نجات ہے اور اس قدر ضرور ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اثنائے قرات میں آیات رحمت پر دعا اور آیات عذاب پر تعوذ اور استغفار کیا کرتے تھے۔ ایسے ہی قنوت میں سجدوں کے درمیان رکوع اور سجدوں میں تشہد کے بعد حسب حال دعائیں وارد ہیں اور کی جا سکتی ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 834